سچ کو سقراط کی مسند پہ بٹھا دیتا ہے وقت منصور کو سولی پر چڑھا دیتا ہے یہ تو اچھا ہوا ہم نے نہیں مانگا ورنہ یہ زمانہ تو محبت کا صلہ دیتا ہے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ’ ایک دریا میں بنا دیتا ہے رستے کوئی اور پھر ان رستوں کو آپس میں ملا دیتا ہے‘۔من و سلوا کی طرح سعد اتارتا ہے سخن۔ اور ملتا ہے اسے جس کو خدا دیتا ہے۔بات یہ ہے کہ اختیار تو سارا خدا ہی کے پاس ہے اور اسی کی مرضی ہے کہ کسی کو مہلت دے یا کسی کا امتحان لے۔ مصیبت یہ کہ ہم نہیں سمجھتے اور ہمارا خیال اس طرف جاتا ہی نہیں اور ہم اسباب کے ہو کے رہ جاتے ہیں۔ اسباب پیدا کرنے والے کی طرف توجہ کسی کسی کی ہوتی ہے اور یہ نظر بھی عطا ہے۔ کچھ دلچسپ باتیں تھیں جو میں کرنا چاہتا ہوں مگر سب سے پہلے تو پاک افواج کے ان جوانوں کو سلام جنہوں نے بٹگرام 600 میںفٹ کی بلندی پر چیئر لفٹ میں پھنسے 8افراد کو 15گھنٹے کی مساعی کے بعد بچا لیا۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس پرسوشل میڈیا پر دعائوں کی پوسٹیں لگ رہی تھیں۔بچوں کا سہم ہی بہت ہوتا ہے۔ سن سن کر کہ سات طالب علم رسیاں ٹوٹنے سے لفٹ میں معلق ہو گئے ،دل کو ہاتھ پڑتا تھا، دل سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ میں نے سعدیہ قریشی کی پوسٹ دیکھی کہ وہ خود بھی آیت کریمہ پڑھ رہی تھیں۔ نماز پڑھنے گیا تو نماز کے بعد ہمارے قاری صدام صاحب نے خصوصاً بچوں کے لئے دعا مانگی ۔کہنے کا مطلب یہ ہمارے دل ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ شاید یہ مشکل وقت میں اجاگر ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ کا شکر ہے کہ فوجی جوانوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ننھی جانیں بچا لیں۔ ان کے والدین قیامت جیسی گھڑیوں سے گزرے ہونگے خدا نے ان بچوں کو نئی زندگی عطا کر دی: کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا اک بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں اب آتا ہوں میں دوسری خبروں کی طرف کہ کچھ خبریں سچ مچ فوڈ فار تھاٹ ہوتی ہیں۔ ایک سینئر صحافی فرماتے ہیں کہ الیکشن ہونگے کہ نہیں اس کی تو بحث ہی غائب ہو گئی۔ پہلے تو اس بیان پر غالب ایک لاجواب شعر ادراک میں آ گیا کہ اس نابغہ نے کیسے سوچا اور اس خیال کو سخن آشنا گیا: دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام مٹ گیا گھسنے میں اس عقدہ کا وا ہو جانا مقصد یہ کہ گرہ کشائی کی کوشش میں وہ گرہ ہی ختم ہو گئی ۔کبھی کبھی دل بھی اسی طرح برباد ہو جاتا ہے بعنی اصل معاملہ تو بہت پیچھے چلا جاتا ہے کہ ہم کرنا کیا چاہتے تھے۔واقعہ مجھے یہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ میرے کان کے اندر شدید درد تھا میرے ہم زلف نے کہا کہ ان کے دادا حضور کا ایک نسخہ ہے کہ وہ جید حکیم تھے۔محترم نے ایک چمچ میں سرسوں کا تیل لیا اس میں کچھ اور چیزیں ڈالیں۔اسے سیدھا آگ پر گرم کیا پھر میرے کان میں وہ محلول گرم چمچ سے ڈالنے لگے تو دہکتا ہوا چمچ پہلے میرے کان کو لگا دیا۔پھر کیا تھا میں بلبلا اٹھا وہ سوری سوری کرتے رہے مگر کان کا درد تو رفو چکر ہو چکا تھا۔اندر کا درد کان کے اوپر آ گیا یعنی جلن تھی کہ انتہا کی کچھ ایسے ہی انتخابات کے ساتھ ہوا ہے۔آپ بس شاہ صاحب کو دیکھیں: ان کی آنکھوں کو جو دیکھا تو پکار اٹھا میں کیا ضروری ہے کہ ہر شخص کو جادو آئے ن لیگ کے ترجمان فرما رہے ہیں کہ نواز شریف عدلیہ کی اجازت سے باہر گئے۔ وہ بجا کہتے ہیں کہ عدلیہ نے اجازت دی مگر وہ تو چار ہفتہ کی تھی اور معینہ عرصہ میں واپسی سے مشروط تھی۔ میاں صاحب تو اس معاملہ میں اپنے چھوٹے بھائی پر اعتماد نہیں کر سکے کہ باہر بھیجنے والوں کا کچھ معلوم نہیں۔ آخر معاہدہ سامنے آ ہی جائے گا میاں صاحب تو جدہ پہنچ کر کون سا دس سالہ معاہدہ مانتے تھے۔ پھر پہلے پانچ اور بعد میں دس سال کا اعتراف کر لیا۔ہاں گرین سگنل مل جائے تو دوسری بات۔وہ اب بھی فرما رہے ہیں کہ وہ ستمبر میں اپنے عوام کے درمیان ہونگے۔ انہیں معلوم بھی نہیں کہ عوام اب ان کے نہیں رہے۔یہ جگہ بھی آپ کے لئے اتنی موزوں نہیں کہ زندگی تو آپ نے برطانیہ ہی میں گزار دی ۔جائیداد اور اولاد بھی ادھر: واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں منیر جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا مجھ پر یقین نہ آئے تو آپ شاید خاقان عباسی کی پریس کانفرنس سن لیں ان کی باتوں میں سچ بول رہے تھے ۔انہوں نے خاندانی سیاست کے بخیے ادھیڑ دیے۔ انہوں نے سچ مچ میں کھری کھری اور بھری بھری سنا دیں۔ایک حد ہوتی ہے برداشت کی بھی۔کوئی کہاں تک برداشت کرے۔اس خاندانی سیاست نے بڑے بڑے انکلز کے بچوں کے پیچھے ہاتھ بندھوا دیے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس ملک میں سیاسی کردار ہے اور عدالتیں بھی اس سے مبرا نہیں گویا کہ مل بیٹھ کر بات کرنا پڑے گی اس کھیل میں عوام ہرگز شامل نہیں۔ بات تو درست ہے کہ یہ نئے لوگوں کے سامنے دیواریں کھڑی ہیں۔ سیاست میں آزاد اذہان نہیں آ رہے، ملک لوٹنے والوں کو راستہ صاف چاہیے۔ یہ تو سمندر کی چھوڑی ہوئی زمین بھی بانٹ لیتے ہیں۔ ڈاکوئوں اور چوروں کے شراکت دار۔مشرف کے دور کا شعر یاد آ گیا: اس نے چوروں سے سرعام شراکت کی ہے اس نے قاتل کو بھی مسند پر بٹھا رکھا ہے شاہد خاقان عباسی کی باتیں دل کو لگیں وہ بھلے مانس آدمی ہیں۔ ان سیاسی خاندانوں کو اپنی ناک سے آگے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ یہ پرلے درجے کے ڈھیٹ بن چکے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ اس کارکردگی کے بعد بھی نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ آئیں گے اور اکثریت سے جیتیں گے کیا سچ مچ ہم تبدیل نہیں ہوئے کیا واقعتاً: پھر اس بے وفا پہ مرتے ہیں پھر وہی زندگی ہماری ہے