یہ عشق ہے،سمجھنے کا نہیں۔۔!!سمجھ آتا ہی نہیں جن کو سمجھ آ جائے انکے دل کٹ جاتے ہیں یہ نکلتا نہیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر جب ،عشق والے جھوم جھوم کر کہتے تھے: ’’ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اس وقت تک جہاد کرنے کی بیعت کی جب تک ہماری جان میں جان ہے ‘‘ اللہ کے رسول ﷺسے ہر دور کے انسانوں کا والہانہ عشق انسانیت کی تاریخ کا ایک انوکھا باب ہے۔ دنیا کی ہر قوم میں عشق اور محبت کی لاتعداد کہانیاں ملتی ہیں جن میں ہیرو سے بے پناہ محبت اور عشق کے قصے اور داستانیںمرتب کی گئی ہیں۔ عشق محمدﷺکا باب ہی الگ اور حیرت انگیز ہے۔جس میں رسول اللہﷺ سے عشق تحیّرانگیز اور سچ کی طویل کہانی کا دل کش باب ہے۔یہ کیا محبت ہے ،کیسا تعلق ہے ،کیسا عشق ہے؟جس نے مردوں عورتوں بچوں یہاں تک کہ بوڑھوں کے سینوں میں سیماب بھر دیا ۔یہ عشق جیتے جی ان کے دلوں سے کوئی محو نہ کر سکا۔یہ سیماب وقتی کشش کی بجائے سیرت و کردار ،حق شناسی کا حسن و جمال ایک مقناطیسی سونے کی طرح ابل پڑا اور ریگستانوں کے اجڈ وحشیوں تک کو مسحور کر گیا۔ یہ پیارہے جس پر صدیوں سے عاشق پروانہ وارنثار ہوتے چلے جا رہے ہیںلکڑی ،پتھراور مٹی کے بے حس معبودوں کے پجاری چاردہائیوںتک آپﷺ کوامین و صادق کہتے رہے۔جب ان تک اپنا آخری پیغام پہنچانے کے لیے اللہ نے آپﷺ کو رسالت کا منصب عطاکیا تو ان بت پرستوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں آگ اگلنے لگیں،وہ اپنے مصنوعی خدائوں کو زمین پر گرتا محسوس کرنے لگے تھے۔ان کا خاندانی جاہ و جلال خاک میں ملتا نظر آنے لگا۔عصبیت اور جہالت کے خوگر جتھے بنا کر جب شمع حق پرٹوٹ پڑنے کو بے تا ب ہوئے تو روشن ضمیر روحوں کے قافلے آگے بڑھے ’’اے اللہ کے رسول!ہم آپ پر نثار ،ہمارے ماں باپ آپ پر قربان!‘‘ان والہانہ نعروں کی صدائیں مکہ کی فضائوں میں گونجتی،بڑھتی اور بلند ہوتی چلی گئیں۔یہ محض کھوکھلے نعرے نہ تھے ، روحوں کی بے تاب حمایت تھی ۔جاںنثاری کا یہ عمل صدیوں سے ایسا ہی ہے۔ایک تسلسل ،جسے تا صبح قیامت اور ابدی جنتوں میں یوں ہی باقی رہنا ہے اس لیے کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ عرب کے سرداروں کے تکبر نے مکہ کے غلاموںکو جانوروں جیسی سطح پر لا پھینکا تھا ۔یہی غلام آپﷺ کی نگاہ کرم سے اٹھے تو تہذیب وتمدن کے رنگ بدلنے لگے۔ یکایک ان کے اندر کا انسان ظاہر و باطن میں ایک ہونے لگا۔ایک اللہ کی پہچان نے ان کو انسانیت کے سفر پر گامزن کیاتو یہ غلام نئی زندگی ، نئے ایمان اور نئی لگن کے ساتھ اس جاں نواز ہستی ؐکے دامن رحمت سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ آزمائشوں کے عفریت منہ کھولے پوری شدت سے آگے بڑھے ،آگ کی بھٹیاںسلگتی لیکن خون پسینے اور آبلوں کے پانی سے بجھ کر رہ جاتی ہیں۔ سنگ و خشت کی بوچھاڑ ہوتی ہے مگر صبر و تحمل کی فولادی دیواروں سے ٹکرا کر اینٹ اور پتھر پھول بن جاتے ہیں۔ خونچکاں شکنجے کسے جاتے ہیں لیکن حق کی آواز کا گلا گھونٹنے سے پہلے خود پارہ پارہ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ خاندانی اعزاز و دولت و ثروت کی بلندیوں پر متمکن حقیقت شناس لوگ فدا کاری و جاںنثاری کا یہ حیرت ناک منظر دیکھتے ہیں اور سنسنی خیز فضا میں اس کاملؐکی شخصیت سے مسحور ہو کر اپنی تمام بڑائیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس کے قدموں پر آگرتے ہیں ۔اس طرح کمزور اور طاقت ور کے انمٹ امتیازات چشمِ زدن میں محو ہو جاتے ہیں اور انسانیت کے آستانے پر غلام اور آقا ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں ۔چشم فلک ایک عشرے کے بعد دیکھتی ہے فتح مکہ کے روز جب آپ ﷺاونٹنی پر سوار تھے، سر مبارک تشکرسے جھکا تھا،ایک’’ غلام ‘‘زید ؓ کا بیٹااسامہ ؓآپ ﷺکی کمر کے ساتھ چمٹا اٹھکیلیاں کر رہاتھا اور ماضی کے ایک ’’غلام‘‘سیدنا بلالؓکعبے کی چھت پرکھڑے اذان دے رہے تھے۔اس دلنواز ہستی نے غلاموں کو اپنی خوئے دلنوازی سے ان سرداروں کا سردار بنا دیاجن کو اس دنیا میں اپنے سے بڑا کوئی سجھائی نہیں دیتاتھا۔ یہ لفاظی نہیں ہے !یہ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔جس کو انسان دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہو اور وہی شے اس انسان کامل ﷺکے قدموں پرعقیدت میںنچھاور کر دی جاتی ہے۔اس کی ایک نگاہِ کرم کی بھیک حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے راہ ِ خدامیں گھر بار لٹا دیے ،کفر و اسلام کے درمیان حق و باطل کا خط امتیاز کھینچنے کے لیے شہ رگوں کا خون نچوڑ کر رزق خاک بنا دیا ۔اولاد اپنے ماں باپ سے کٹ کر نکل گئی ۔ماں باپ نے اپنی چہیتی اولا دکورسولؐ کی چاہت پرقربان کر دیا۔ دنیاکے رنگ و بو سے دامن چھڑا کر گوشت پوست کے انسان روح و قلب کی پکار پر دوڑ پڑے اورآپ ﷺکے پیوند در پیوند دامن سے اس طرح جا لپٹے جس طرح ایک معصوم بچہ تڑپ کر ماں کی چھاتی سے چمٹ گیا ہو ۔دولت کے لبالب خزانوں کو خالی کر کے لوگوںنے اس بات میں عظیم مسرت اور فخر محسوس کیا کہ درنبوی کے بھکاری کہلائے جائیں ۔وطن کی فطری محبت غالب ہوتی ہے ۔لوگوں نے ان فضائوں میں سانس لینا گوارہ نہ کیا جہاں اللہ کے رسولﷺکے خلاف نفرت و انتقام پروان چڑھایا جا رہا تھا، کاروبار عزیز و اقربا،دوست و احباب اور تمام تر دلچسپیوں کی ’’جنت‘‘کو ٹھکرا کر محمدؐ کے دیوانوں نے خانہ ویرانی اور خانہ بدوشی کے خارزاروں کو لبیک کہا ،دشت و صحرا کی خاک چھانی اور نگر نگر کی ٹھوکریں کھائیںاور یہ سب کچھ اس لیے کہ محمدؐ عربی کی حسین نگاہ نے ان کے سینوں میں حق و صداقت کی جو چنگاری روشن کر دی تھی وہ شمع گل نہ ہونے پائی۔اپنا سب کچھ لٹا دینے کے بعد امتحان کی وہ آخرراہ گزرآئی جہاں خود اپنے ہاتھو ں اپنے آپ کو قربان کر دینے کا سوال پیدا ہوتا ہے تو عقیدت و شوق کے ان بے تاب پیکروں نے آب دار خنجروں پر گردنیں رکھ دیں ۔ اپنے خون میں نہا نہا کر وہ یہی کہتے رہے’’یارسول اللہؐ!ہم آپ پر نثار ہمارے ماں باپ آپ پر قربان !!‘‘ زخموں سے چور اور چھلنی یہ فداکار،کاری زخم کھانے کے لیے جھومتے ہوئے بڑھتے تھے ۔ستر ستر زخموں کا بدن پر سجا کر بھی شہادت حق کے ذوق جانبازی میں کمی نہ پاتے تھے ۔جوٹیٹرھی آنکھ محمد ؐ کی طرف اٹھی وہ لوہے کی ڈھالوں کے پیچھے بھی بچ نہ سکی ۔جوتیر تلوارآپﷺ کے خلاف اٹھے جان دینے والوں نے ان کے آگے اپنے سینوں کی دیواریں کھڑی کر دیں ۔اس دیوار پر ہزاروں ترکش خالی کئے گئے مگر اس دیوار میں جنبش نہ ہوتی ۔کفر کی طرف سے تیروں کی باڑچلتی تھی تو ادھر عقیدت کے متوالے سینے کھولے ہوئے سامنے آتے تھے ۔ادھر سے موت کی آندھیا ں اٹھتی تھیں تو ادھر سے حق و صداقت کے نشے میں وجد کرتے ہوئے سر ابھرتے تھے ۔یہ سر گردن سے اتر جاتے تھے لیکن آواز آتی تھی، ’’ٖفداک یارسول اللہ۔۔فداک یا رسول اللہ‘‘!! یہ جنون تھا،عشق تھا،فداکاری تھی ،جان سپاری تھی،مقصد سے لگن تھی،محبوب خدا سے عقیدت تھی،حجاز کی بنجر زمین کے ایسی زر خیز فصل لہلہائی،جس نے دنیا کے ہر کونے تک عنبراورعود سے زیادہ مہک پھیلا دی۔کتنا مستحکم تھا یہ عشق رسول،ؐیہ’’ جنوں‘‘جو چند برسوں میں دنیا کا تا بہ ابد فاتح بن گیا۔یہ سچائی تھی جس نے مکہ کی گلیوں سے پتھر کھاتے سفر کاآغازکیا۔طائف اور،شعب ابی طالب سے گزری،ہجرت کے جاں لیوا سفروں سے بدر،خندق اوراحد کے معرکوں سے گزرتی چلی گئی۔بھلا روشنی اورر خوشبو کا سفر کون روک سکتا ہے؟اس روشنی کاحسن وجمال تھا کہ عرب کانقشہ ہی بدل گیا۔انسانیت کی کایا پلٹ گئی اور جو کاملؐانسانیت کی فلاح کو تن تنہا نکلے تھے انہوں نے ۲۳ برسوں میں حجۃ الوداع کے روز دیکھا تو ایک لاکھ سے زیادہ انسانی سرایک رب کے آگے سجدے میں پڑے ہوئے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو جان کے دشمن بن کر نکلے تھے اور وہ بھی تھے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر ساتھ چلے تھے۔سب یک زبان کہہ رہے تھے صدقتک یارسول اللہ،آپﷺ نے سچ کہا اے اللہ کے رسولﷺ۔۔۔آپ ہی سچے ہیں۔ فداک امی و ابی یارسول اللہ!!