ہادی چوپان ستمبر 1987 میں جنوبی ایران کے صوبہ فارس کی سیپدان کاؤنٹی میں پیدا ہوا۔ چوپان کا تعلق معاشی طور پر جدوجہد کرنے والے خاندان سے ہے ۔ وہ چھوٹی عمر میں ہی کام کرنے لگا، سامان بیچنے اور تعمیراتی مزدوری سے روزی روٹی کمائی۔ محنت طلب کام کے باوجود چوپان نے کم عمری میں ہی باڈی بلڈنگ میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ 2002 میں چوپان نے کوچ جمشید اوجی کی نگرانی میں تربیت کا آغاز کیا۔اس اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے 5 کلو گرام وزن اٹھایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے مسلسل ترقی کی۔ پروفیشنل باڈی بلڈر بننے کے تین سالوں کے اندر چوپان نے ایک قومی مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور صوبہ فارس کے مقامی مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔ 2005 میں اس نے اپنا پہلا قومی ٹائٹل جیتا۔یہ اس کھیل میں اس کے عروج کا آغاز بنا۔ 2013 میں چوپان کے کیریئر نے ایک اہم قدم آگے بڑھایا جب اس نے علی نعمتی کے ساتھ تربیت شروع کی۔ 2013 میں ڈبلیو بی پی ایف ایشیا چیمپئن شپ جیتی اور 2013، 2014 اور 2015 میں ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ میں مسلسل کامیابیاں حاصل کیں ۔ 2017 میں اس نے کوچ ہینی ریمبوڈ کے ساتھ تربیت شروع کی اور 2017 کے مسٹر اولمپیا ایمیچور میں گولڈ میڈل پایا۔ اسی سال اس نے "دی پرشئین ولف" کے نام سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ ہادی چوپان کو امریکی ویزا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ 2018 میں بڑے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنے سے محروم رہا تاہم اس نے 2019 میں اپنے مسٹر اولمپیا ڈیبیو میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور پیپلز چیمپیئن کا ایوارڈ جیتا۔ ہادی چوپان نے 2020 اور 2021 کے شو میں چوتھی اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 2021 میں دوسری بار پیپلز چیمپئن ایوارڈ جیتا۔ 2022 میں ہادی نے 26 حریفوں کو شکست دے کر مسٹر اولمپیا کا ٹائٹل جیتا اور بگ رامی کی جگہ لی۔بگ رامی مصری باڈی بلڈر ہے اور پہلا مسلمان مسٹر اولمپیا۔ 2023 میں ہادی چوپان ڈیریک لونسفورڈ سے ٹائٹل ہار گیا۔وہ ناراض ہو کر سٹیج سے اترا اور یہی کہانی بنی۔پوری دنیا میں لوگ مسٹر اولمپیا مقابلوں میں نا انصافی کی تاریخ نکال کر بحث کر رہے ہیں۔ ایک مقبول کھیل میں پسند نا پسند کو اہمیت مل رہی ہے۔ مسٹر اولمپیا باڈی بلڈنگ کا سب سے بڑا مقابلہ ہوتا ہے جسے جوویڈر کی کمپنی کی سرپرستی حاصل ہے۔ جو ویڈر اور بن ویڈر دو امریکی بھائی ہیں۔1960ء کی دہائی میں انہوں نے فٹنس بزنس شروع کیا۔ دونوں نے پہلے ورلڈ جم اور گولڈز جم کے نام سے الگ الگ فٹنس سنٹروں کی چین بنائیں۔ پھر وہ سپورٹس میڈیسن اور قوت بخش ادویات کے کاروبار میں آئے۔ اپنے کاروبار کی برانڈنگ اور تشہیر کے لئے انہیں کوئی موثر راستہ درکار تھا۔ دونوں بھائیوں نے مسٹر یونیورس اور مسٹر ورلڈ سے بڑا مقابلہ مسٹر اولمپیا کے ٹائٹل کے ساتھ کرانا شروع کیا۔ آج ٹیکنالوجی‘ سٹیرائیڈز اور فوڈ سائنس نے کھلاڑی کو روبوٹ بنا دیا ہے۔ آرنلڈ شیوارزنگر کے گرد لیو فریگنو‘ فرینکوکولمبو‘ فرینک زین‘ روبی روبنسن جیسے باڈی بلڈرز تھے۔ لی ہینی مسٹر اولمپیا بنے تو انہیں لی لیبریڈا‘ سمیر بنوٹ‘ گیسپری اور ٹام پلاٹز جیسے حریف ملے۔ پھر برطانوی باڈی بلڈر ڈورین یئٹس کا دور آیا۔ یہ دور شان رے کا بھی ہے۔ ان کے بعد رونی کولمین آئے۔ آٹھ سال متواتر مسٹر اولمپیا رہے۔ باڈی بلڈنگ کی تاریخ کے سب سے بڑے سائز کے چیمپئن۔ اس دور میں طرح طرح کی ادویات اور مشینی استعمال بڑھا۔ نئے نئے تجربات ہوئے۔ رونی کولمین کمر کی انجری کا شکار ہوئے اور اب وہیل چیئر پر ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے اپنا گھر ‘ جم کا سامان‘ شوز اور دوسری چیزیں بیچنے کا اعلان کیا ہے۔ رونی سمجھ چکے ہیں کہ اب وہ بحالی کی خاطر جتنی بھی کوشش کر لیں پہلے جیسی صحت مند زندگی نہیں پا سکتے۔ مسٹر اولمپیا ٹائٹل جیتنے والا ہی نہیں پہلی چھ پوزیشنیں لینے والے تن ساز بھی راتوں رات مشہور ہو جاتے ہیں۔ انہیں بھاری نقد انعام ملتے ہیں۔ اس بار مسٹر اولمپیا کو 4لاکھ ڈالر جبکہ رنراپ کو ڈیڑھ لاکھ ڈالر ملے ہیں۔ باقیوں کو بھی معقوم رقم ملی ۔سپورٹس ویئر کی کمپنیاں‘ شوبز انڈسٹری ‘ اشتہارات‘ شو پوزنگ‘ تقریبات میں شرکت اور کوچنگ کی پیشکشیں مزید لاکھوں ڈالر آمدن کا ذریعہ بنتی ہیں۔ حالیہ مقابلے میں پہلی بار پاکستان کے معصوم بٹ نے شرکت کی۔ معصوم بٹ مسٹر پاکستان ہیں۔ جونیئر مسٹر ایشیا ہیں۔ ایشین میڈلسٹ ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے بیرون ملک مقیم ہیں‘ وہاں کی تیکنیکس اور ٹیکنالوجی سے واقف ہیں۔ کرکٹ اور باکسنگ کی طرح باڈی بلڈنگ کے مقابلے… تعصب، سیاست، اور زیادہ تر منافع پر انحصار کرتے ہیں ،مقابلہ حسن کی طرح یہ فیصلے بھی منڈی دیکھ کر ہوتے ہیں۔ ایک جگہ 1980 کے اولمپیا کا حوالہ دیا گیا ہے جو ایک متنازعہ نتیجہ تھا اور "دھاندلی" کے مقابلے کی ایک حقیقی مثال تھا۔کچھ دوسری مثالوں میں 1997 کا اولمپیا بھی شامل ہے جہاں میری رائے میں نصر السنبتی کے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی۔ اپنی موت سے پہلے نصر نے بتایا تھا کہ ججنگ پینل نے کسی کے بھی اسٹیج پر آنے سے پہلے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔مسٹر اولمپیا جے کٹلرکے مطابق اس وقت کے مسٹر اولمپیا کو آف ایئر کے لیے پاس دیا گیا ہے لیکن 2008 میں جب وہی مسٹر اولمپیا ڈیکسٹر جیکسن سے ہار گیا تو اسے "سزا" مل گئی۔ یوں تو سرج نیوبرٹ جیسے کئی ہیں جو دھاندلی اور نا انصافی کی بات کرتے رہے ہیں لیکن چار سال پہلے فل ہیتھ کی کامیابیوں میں سے کچھ کے لیے بھی ایک کیس یقینی طور پر بنایا جا سکتا ہے۔ جے کٹلر کا کہنا ہے کہ پھولے ہوئے پیٹ اور ایک خوفناک آنت کے ساتھ سٹیج پر آیا۔ فل کو شاید اس شو کو مس کر دینا چاہئے تھا ۔آپ کائی گرین کے لیے بھی ان کی ایک دو جھڑپوں میں کیس بنا سکتے ہیں۔ہادی چوپان تقسیم انعامات تک سٹیج پر رہا لیکن پھر نیچے چلا گیا۔ساری دنیا سے اس کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔کھیل اب عالمی طاقتوں کی سافٹ پاور بن چکے ہیں، پسماندہ ملکوں کا ٹیلنٹ صرف مارکیٹنگ کے لئے سامنے لایا جاتا ہے۔