1947میں پاکستان جب وجود میں آیا تھا اسکی کل آبادی تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ کے قریب تھی، اس دوران ایک مربع کلومیٹر میں جو لوگ رہ رہے تھے انکی تعداد تین سے پانچ تھی۔ یعنی پاکستان 79 ملین ہیکٹر رقبہ ہے، اس رقبہ میں یہ آبادی قیام پزیر تھی۔ یہ آبادی و رقبہ مغربی پاکستان کا بتایا جا رہا ہے جبکہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی اس وقت کی آبادی و رقبہ میں کافی فرق نمایاں ہے۔ آج کہ پاکستان کی 2022 میں آبادی بڑھ کر تئیس کروڑ اکتیس لاکھ ہو چکی ہے یعنی کہ پچھتر سال میں میں بیس کروڑ آبادی کا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت جو ایک کلو میٹر مربع میں لوگ رہے ہیں وہ تقریبا 287 سے لے کر تین سو تک ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جہاں ایک مربع میں دو سے پانچ لوگ رہے تھے وہ ان تین سو سے چار سو گنا لوگوں کا اضافہ ہو چکا ہے ہے۔ جب ہم قابل کاشت رقبہ کی بات کرتے ہیں تو وہ 22 ملین تھا، اس قابل کاشت رقبے میں بھی سات سے آٹھ ملین مربع کلومیٹر یاں بنجر ہو چکی ہے یاں وہاں پر مختلف ہاؤسنگ سوسائٹی تعمیر ہو چکی ہیں۔ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی قدرتی خوبصورتی کو تہس نہس کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اسکے ساتھ ساتھ انکا مقصد صرف پیسہ کمانے ہے جبکہ دیکھا جائے تو کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان یہاں کے رہائشیوں کو بہترین سہولیات دینے سے ناپید ہیں۔ مزید برآں پاکستان میں جو قابل کاشت رقبہ ہے وہ بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کی وجہ سے کم ہو چکا ہے جس کی ایک وجہ دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ آبادی بڑھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ آبادی پر قابو پائیں بلکہ آبادی کو بہترین عوامل کے ذریعے سنبھالنے کے اْصول بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہاں کہ لوگوں کو معاشرہ کا اچھا شہری و فرد بنایا جا سکے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی میں نقل ق حرکت کا پیمانہ زیادہ ہے، قیام پاکستان کے دوران اور اسکے کافی عرصہ تک نقل و حرکت کے وسیع ذرائع موجود نہیں تھے جسکی وجہ سے لوگ کم حرکت کرتے تھے، اس کے مقابلے میں جیسے جیسے ٹرانسپورٹ کی سہولیات بڑھتی جا رہی ہیں تو نقل و حمل زور پکڑ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں گاڑیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں، ایک اندازے کے مطابق اس وقت موٹر سائیکل سمیت بیس ملین تک گاڑیاں موجود ہیں۔ جیسے جیسے گاڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے فضائی و شور کی آلودگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے کہ پاکستان میں آبادی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے تو اس کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی زور پکڑ رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں اگلے پانچ سال تک آبادی تئیس کروڑ سے بڑھ کر چالیس کروڑ تک پہنچ جائے گی اسکے ساتھ ساتھ نقل و حمل کے ذرائع میں بھی خاصا اضافہ ہوگا جو ماحول پر مزید برا اثر ڈالیں گے۔ آبادی کی وجہ سے جہاں قابلِ کاشت رقبہ میں کمی واقع ہوئی ہے وہیں دن بدن ہاؤسنگ سوسائٹی، سڑکوں کی تعمیر میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے، یہ ایک ایسا معاشرتی مسئلہ ہے جسکو کم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ پاکستان کی حکومت میں سب سے پہلے استحکام کی اشد ضرورت ہے اسکے بعد ایسی حکمت عملی وجود میں لائی جائے جو کام بھی کر سکے۔ حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جہاں آبادی کی خوراک و رہائش کی ضروریات کے ساتھ بڑھتی ہوئے نقل و حمل کے ذرائع میں بھی کمی کی جا سکے۔ میرے نزدیک اس سنگین مسئلہ کو تین طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے آبادی کو منظم کرنا ہوگا؛ جہاں لوگوں کو آگاہی دینی ہوگی کہ وہ اپنے پاؤں دیکھ کر چادر پھیلائیں، چونکہ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے جہاں 67 فیصد نوجوان موجود ہیں جہاں اس وقت 29 سال سے کم نوجوان موجود ہیں۔ انکو نوجوانوں کو جہاں تعلیم کی ضرورت ہے وہی انکو بنیادی سہولیات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ انکے لیے کھیلوں کے میدان بنائے اور مختلف کھیلوں کو عام کریں جیسے والی بال،کبڈی و کشتی وغیرہ۔ یہ ایسے کھیل ہے جو ہمارے اپنے کھیل ہیں جنکو عام کرنے کی زیادہ ضرورت در پیش ہے۔ جو لوگ کچھ نہیں کر رہے ہیں وہ اگر ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں تو آبادی میں بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ دوسرا پاکستان میں آبی ذرائع کی آمد و رفت کو متعارف کروانے کی ضرورت ہے جس سے معاشیات میں اضافہ ہوگا، یہ ایک ایسا آمد و رفت کا ذریعہ ہے جو نہایت سستا ہے، تیسرا جتنی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی وجود میں آ رہی ہیں انکو افقی طریقہ سے عمارات کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت پاکستان میں دس لاکھ گھروں کی ضرورت ہے، آبادی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے۔ پاکستان میں قابلِ کاشت زمین پر گھر بنانے کی اجازت کبھی بھی نہیں ہونی چاہیے ورنہ پاکستان میں خوراک کی قلت پیدا ہو جائے گی، مزید برآں نجی ملکیت کو بھی قابو کرنے کی ضرورت ہے وہ لوگ جنکے ایک سے زیادہ گھر ہیں انکے اوپر بہت زیادہ ٹیکس لگائیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ زمین کو خرید نہ سکیں۔ اسکے علاوہ پاکستان میں فلیٹ بنانے کی ضرورت ہے جہاں کم جگہ پر زیادہ لوگوں کو بہترین سہولیات دے کر رہائش دی جا سکے۔ حکومت عوام کو زمین خریدنے سے روک تو نہیں سکتی لیکن اس میں ممکن کمی صرف بھاری ٹیکس کے ذریعے کی جا سکتی ہے تاکہ حکومت یہاں سے پیسہ کمائے اور اس پیسہ کو فلیٹ و اپارٹمنٹ کی تعمیر و مرمت میں لگائے۔ اس وقت تک پاکستان میں جتنی بھی ہاؤسنگ سوسائٹیز بن چکی ہیں ان پر بھی ٹیکس لاگو کرے تاکہ کوئی بھی قابل کاشت زمین پر تعمیراتی کام نہ کر سکے، اسکے علاوہ وہ زمین جو ناقابلِ کاشت ہے اسکو قابل کاشت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حکومت کو خوراک کی قلت کے مسائل پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان میں تقریباً پینتالیس فیصد آبادی مناسب خوراک کی فراہمی سے مستفید نہیں ہو پا رہی، غیر مناسب خوراک نے عوام میں مختلف بیماریوں کو پیدا کر دیا ہے جس سے صحت پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ پاکستان کی حکومت آبادی کی ضروریات کو سمجھے اور نا صرف آبادی کو منظم کرے بلکہ سڑکوں کے انفراسٹرکچر سمیت ہاؤسنگ سوسائٹی پر بھی توجہ دے۔