سرکاردوعالم ؐ پر لاکھوں دورود سلام۔مہر علم و عمل پر صدہا درود،امام رُسل کی آمد سے گمراہیوں اور لاعلموں کو راہ اللہ ملی ۔صلہ رحمی کا درس ملا ۔ علوم مطہرہ سے آگاہی ہوئی ،سالہاسال سے عدوگلے ملے ۔حسد گمراہی ،دھوکہ دہی ،حرام کاری ،لوٹ مارکے عادی۔صلہ رحم ہوئے ۔مکہ کی وادی سے طلوع مہر ہوا،سارے عالم کی صالح ہوئی ۔اللہ کی مدد آئی ،عدومُصلح ہوئے ۔ہادی کامل کی حمد و دعا سے اہل مکہ مسرور ہوئے ،عدو حسد کی آگ سے دہک اٹھا ،لامحالہ ہر سُو صلہ رحمی کا دور دورہ ہوا۔ 14 سو سال سے مسلمان ہزاروں کلومیٹر پیدل اور فضائی سفر کرکے گنبد خضرا کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور اپنی آرزئوں اور تمنائوں کی پوٹلیاں کھول کر آقائے نامدار ؐکی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔ کبھی میرے ذہن پر بھی ساون کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں اور سرشام ہی گہرا اندھیرا ہو جاتا ہے اور میرے اندر سے رات بھر سردیوں کی بارش پیہم برستی رہتی ہے اور دل کی چھت سے بوندوں کی طرح ٹپ ٹپ کی آواز آتی ہے اور میں اپنے ملک میں اسلام کے نام پر گرتی لاشوں پر اشکبار ہوتا ہوں اور دوسروں کی بجائے اپنے آپ کو ہی کوستا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میرے پیارے آقا نے اسلام لاشیں گرا کر تو نہیں پھیلایا تھا بلکہ آپ نے تو پتھر کھا کر اپنے نفیس جسم پر گندگی اور اوجھڑی برداشت کرکے طائف کی وادیوں میں اپنے جسم اطہر کو لہولہان کرا کر اور پھر مکہ کی گلیوں میں دشمنوں کی جانب سے نامناسب آوازیں سن کر بھی محبت کا پیغام دیا تھا بلکہ آپ نے تو فتح مکہ کے موقع پر فرمایا تھا۔ آج کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا بلکہ آپ نے تو ابوسفیان کے گھر کو دارالامن قرار دیا تھا لیکن ہم خون بہا کر مخالفین کا قتل عام کرکے اسلحے کے زور پر اسلام پھیلانے لگے ہوئے ہیں گنبد خضرا میں میرے پیارے آقا کے ساتھ آرام فرماتے آپ کے دونوں رفقا کا بھی یہ طرز عمل نہیں تھا۔ اسی کشمکش میں مجھے ہوا کا لطیف سا جھونکا اٹھا کر دور اس نور والی بستی میں لے جاتا ہے جو مجھ سے بہت دور ہے۔ کاش میں حقیقت میں مواجہہ شریف کے پاس پہنچ پاتا کا ش میں مابین بیتی و ممبری روضۃ من ریاض الجنہ میں پہنچ پائوں‘ اور امی عائشہؓکے حجرے اور پیارے رسول کے روضہ کی جالیوں کے پاس بیٹھ کر اپنے آقا کے سامنے اپنے دکھوں اور اپنے ملک میں روز گرتی سینکڑوں لاشوں سمیت لاکھوں عرضیاں پیش کر سکتا اور میں اس ذات کے سامنے دست بستہ ہو کر اپنا دکھڑا پیش کرتا اور یوں گویا ہوتا۔ آقا آپ تو ماں سے زیادہ مہربان اور باپ سے زیادہ شفیق ہیں راتوں کے پچھلے پہر اٹھ کر اپنے مبارک ہاتھ ہمارے لئے دعائوں کے لئے بلند کرتے رہے ہیں۔ آپ کے مطاہر لبوں سے ہمارے لئے دعائوں کے پھول برستے رہے۔ آپ کی مقدس آنکھوں سے ہمارے لئے آنسوئوں کی جھڑیاں لگتی رہیں۔ زندگی کے ہر موقع پر آپ کو ہماری فکر دامن گیر تھی۔ اب بھی ہماری طرف توجہ فرمائیں آقا ادھر بھی نظر کرم فرمائیں۔ آقا کل جب حشر کا میدان ہو گا، ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہو گا، انسان بھوک پیاس اور خوف سے بے حال ہوں گے، جب ماں بچے کو دیکھ کر بھاگ جائے گی، جب باپ بیٹے کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کر جائے گا، جب جگری یار آنکھ چرا کر دوڑ جائیں گے، جب خدام و نوکر ٹکا سا جواب دے دیں گے، جب دنیاوی رشتے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ حضور اس وقت آپ ہماری محبت میں بے چینی سے حشر کے میدان میں بھاگ دوڑ رہے ہوں گے۔ کبھی پل صراط پر ہمیں پل صراط پار کروا رہے ہوں گے کبھی حوض کوثر پر کھڑے اپنے پیارے ہاتھوں سے ہم کو جام پلا رہے ہوں گے۔ میدان حشر میں جب سارے نبی نفسی نفسی کہہ رہے ہوں گے، اس وقت آپ ’’امتی امتی‘‘ پکار رہے ہوں گے۔ حضور اس وقت آپ کے ہی جھنڈے میں ہمیں پناہ ملے گی۔ آپ ہمارے لئے سحاب و کرم ہیں۔ آپ ہماری طرف نظر رحمت فرمائیں۔ ہمارے اعمال تو اس قابل نہیں ہیں، ہم بے گناہوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی ذات اقدس کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم پر پتھروں کی بارش ہوتی، ہم پر آسمان سے آگ کا مینہ برساتی بپھری ہوئی آندھیاں ہمیں پٹخا پٹخا کر مارتیں۔ ہولناک زلزلے ہمارے پاپی وجودوں کو تہ زمین میں لے جاتے، سیلاب ہمیں کوڑے کرکٹ کی طرح بہا لے جاتے اور ہماری پھولی ہوئی بدبودار لاشیں عبرت کی تاریخ بن جاتیں۔ ہماری فصلیں برباد کر دی جاتیں اور ہم پر بھوک اور قحط کے عذاب ٹوٹ پڑتے۔ ہماری شکلیں مسخ کر دی جاتیں۔ ہم پر قوم عاد و ثمود کی تاریخ دہرائی جاتی۔ حضورؐ آپ کی وجہ سے اور آپ کے گنبد حضرا کی وجہ سے ہم بچے ہوئے ہیں۔ حضور ہمیں اپنے دامن رحمت میں چھپا لیں۔ کل جب ہمیں سزا ملے گی تو آپ پر بھی گراں گزرے گی۔ہم سات سمندر پار بدنصیبوں کو اپنے دامن میں چھپا لیں اور ہمیں جہنم کی دہکتی آگ سے بچا لیں۔ میں عرضیوں کی یہ پوٹلیاں گنبد خضرا کے پاس آ کر پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن مدینہ دور ہے۔ یاالہی مجھے بھی اپنی عرضیاں پیش کرنے کیا ہمت عطا فرما ۔مجھے آقانامدار ؐ کے گنبدکے سامنے حاضر ہونے کی توفیق عطا فرما۔امین