جو وقت گزر گیا۔ وہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو گیا۔ تاریخ کا سبق جو بھی ہو لیکن آج ہمارے سامنے موجود بورڈ پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہماری پوری سیاست اسی ایک چوراہے کے گرد گھوم رہی ہے جس پر بہتان‘ الزام تراشی‘ سازش‘ بغاوت اور اختلاف برائے اختلاف کے نعرے چسپاں ہیں۔ خود کو حق‘ سچ اور راست باز قرار دینے اوردوسرے کو چورقرار دینے کے علاوہ ہماری پوٹلی میں کچھ نہیں۔ آج جب دنیا اپنے سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے نت نئے روشن راستے تلاش کر رہی ہے ہم ڈیفالٹ کی گہری کھائی میں گرنے سے بچنے کے لیے باہم تدبیر کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور پیچھے دھکیلنے میں اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ حکومت عام پاکستانی کے لیے مکان کا کرایہ ادا کرنے‘ بجلی کے بل‘ بچوں کی فیس‘ علاج معالجے اور روکھی سوکھی کھانے کی استطاعت میں بہتری پیدا کرنے کی فکر سے زیادہ اس الجھن میں پھنسی ہوئی ہے کہ وہ کس طرح اپنے اقتدار کی مدت پوری کرسکتی ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ ملک ڈیفالٹ سے بچ بھی گیا لیکن اس ملک کے رہنے والے بے بس عوام مہنگائی کا عذاب جھیلنے سے بچ نہیں پائیں گے۔ میں گزشتہ روز عمراان خان کی تقریر سن رہا تھا۔ لوگ ان کی جرأت پر واہ واہ کر رہے تھے۔ میں شہبازشریف کے فرمودات پر نظر ڈال رہا تھا۔ میں آصف علی زرداری کے ارادوں اور عزائم کا جائزہ لیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ تو اس قومی سفر کو نئے انداز سے ری سیٹ کرنے کی خوشخبری دے رہے تھے۔ میں مولانا فضل الرحمن کو جب بھی سنتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان میں اس قوم کے دکھ درج کو ختم کرنے کا ایک طوفان موجود ہے۔ میں نے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا الوداعی خطاب بھی سنا۔ انہوں نے بڑے حوصلے اورفراست سے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ فوج کی غیر جانبداری اور سیاست سے دور رہنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کی۔ معاشی استحکام کو ملک کی اولین ضرورت قرار دیا۔ میں نے ملکی معاملات کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران وہ تبصرے بھی سنے جس میں انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور یہ بھی کہ جمہوریت کی گاڑی کو آگے چلانے اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے پارلیمنٹ سب سے بہتر اور موثر پلیٹ فارم ہے۔ یہاں یہ کہنے دیجئے کہ عام آدمی کے مسائل کچھ اور حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور رہی ہیں اگر میری بات غلط ہے تو میرے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ تمام تر فہم فراست اور دانش کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں نے 75 سال کے بعد بھی ساٹھ فیصد لوگوں کو پانی ایک گلاس فراہم نہ کیا جا سکا جو صدیوں سے کیچڑ چھان کر پیتے آ رہے ہیں۔ اربوں روپے سے تعمیر کردہ پارلیمنٹ کی یخ بستہ ہال میں آرام دہ نشستوں پر براجمان کیا ان حکمرانوں اور عوامی نمائندوں سے پوچھا جا سکتا ہے جو اس مملکت خداداد کو اسلامی فلاحی ریاست اور ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرتے رہے کہ ان کا یہ اسلام 22 کروڑ لوگوں کی پٹواریوں‘ تحصیل داروں‘ تھانیداروں اور مروجہ کرپٹ اور استحصالی نظام کے کل پرزوں سے جان چھڑا سکتا ہیان لوگوں کی جو 75 سالوں سے گھروں میں ڈبکے بیٹھے ہیں۔ ان 70 لاکھ نوجوانوں کو ملازمتیں دلا سکتا ہے جو ڈگریاں ہاتھ میں تھامنے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں ان 2 کروڑ مظلوموں کو انصاف دلا سکتا ہے جو برسوں سے ایک عدالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری سرکار کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔آپ جس اسلامی فلاحی نظام اور ریاست کی باتیں کرتے ہیں کہ کیا آپ کا یہ نظام پسینے سے شرابور بدبودار انسانوں کو پارلیمنٹ میں داخلے کی اجازت دلا دے گا۔ پہلے دوسرے اور تیسرے طبقے کے درمیان کھڑی دیواریں گرا دے گا۔ ایچی سن اور ٹاٹ سن کا درمیانی فاصلہ مٹا دے گا۔ بیمار کو دوائی‘ ضرورت مند کو رقم اور مظلوم کو زبان دے دے گا۔ دفتروں سے بند دروازے‘ اردلی‘ بیرے‘ جنگلے گیٹ‘ استقبالیے ختم کردے گا۔ گردنوں سے سریے اور آنکھوں سے قہر خارج کر دیگا۔ عمران خان‘ شہبازشریف‘ نوازشریف‘ آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور تمام صاحب اقتدار سب کسی ایک دن اپنے گھروں سے نکل کر چکوال‘ بہاول نگر‘ ٹنڈو آدم‘ جیکب آباد‘ مردان اور گوادر میں پھیل جائیں، خضدار‘ ماتلی‘ بدین اور خیرپور چلے جائیں، بنوں اور بھورے والا چلے جائیں۔ وہاں کا مشاہدہ کرلیں۔ اپنی پسند کے کسی دیہی علاقے میں چلے جائیں اور کھال میں اترتی حدت اور شدت وجود سے اڑتے حبس اور جسم سے جدا ہوتی زندگی کے درمیان کھڑے ہو جائیں۔ اپنے ہی کندھوں پر اپنے ہی جنازے اٹھا کر پھرتے لوگوں کو مخاطب کریں‘ انہیں بتائیں کہ آپ کون سی فلاحی ریاست چاہتے ہیں۔ پھر وہ لوگ آپ کو جو جواب دیں اسے باندھ کر اپنے محل نما گھروں کی طرف لوٹ آئیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ آپ کون سی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔کیا آپ کا یہ نظام جاگیرداروں کے ڈیروں پر بیٹھے لاکھوں غلاموں کو آزادی دلا دے گا۔پتھریلی زمین پر ہل چلانے والے دریدودامن دہقانوں کو سال بھر کا آٹا دلا دیگا۔ روتے بچوں کے آنسو پونچھ ڈالے گا۔ بیوائوں کا خوف ختم کر دیگا۔ یتیموں کے سروں پر سایہ بن جائے گا۔ بے آسروں کو آسرا دیگا۔آپ جس نظام‘ حقیقی آزادی اور عوامی بہبود اور ریاست مدینہ کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ عام پاکستانی کو ارکان اسمبلی منتخب کرنے کی اجارت دے گا۔ سارے بدمعاش‘ سرگیر اور چوروں کو جیل بھجوا دے گا۔ سارے قبضے چھڑواوے گا۔ سارے کمیشنوں کا حساب بے باق کردے گا۔ میرٹ واپس لے آئیگا۔ قانون کی عملداری کرا دے گا۔ اخلاقیات کو آئین بنا دیگا۔ تاجروں کو حضرت عثمان غنیؓ کا اور حکمرانوں کو حضرت عمرؓ کا پیروکاربنا دیگا۔ عالموں کو وزیر اور پرہیز گاروں کو مشیر بنا دیگا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خواہ مخواہ کے دعویٰ نہ کریں۔ ذرا سوچیں کہ آپ سب نے جو وعدے کئے اس پر کتنا عمل ہو سکا۔ ایک لمحے کیلئے اپنے محل نما گھروں سے باہر نکل کر سوچیے۔ منرل واٹر‘ سلائسوں‘ کافیوں‘ خوشبوئوں‘ جرمن کتوں‘ امریکن فارمولوں اور اپنی پرتعیش زندگی سے باہر نکل کر سوچیے۔ سوچیں کہ اس نظام کے دامن میں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا کیوں نہیں۔ کوئی اصلاح کوئی تبدیلی کیوں نہیں۔ کوئی دعوے اور کوئی وعدے کرنے سے پہلے خود اپنے آپ سو پوچھیں کہ آپ سب چاہتے کیا ہیں؟ کیونکہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے اور ایک دن ہمیں اپنے اعمال کیساتھ اس کے سامنے حاضر ہونا ہوگا۔