درد میں اور جو بہل جائے وہ طبیعت کہاں بہل جائے خشک پیڑیوں کی تالیاں سن کر زرد موسم نہ پھر بدل جائے ساتھ ہی ایک شعر ایک زمانہ یاد دلا گیا ’’کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے‘‘ اور پھر سعد دل بھی عجیب سی شے ہے کچھ نہ دیکھے جہاں مچل جائے‘‘ ۔ سامنے اخبار ہے۔سرخی آنکھوں میں آئی تو ہنسی آ گئی۔ شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں عمران نے بدنام کیا۔ملک کی خاطر اختلافات بھلائے جا سکتے تھے بالکل درست کہا وگرنہ منی بدنام ہوئی اور نہ اتنی بڑی خلیج درمیان آئی۔ ہم تو کب کے کہہ رہے تھے: اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا تھا ایک اور بھی رخ تھا حالات کو سدھارنے کا اور چمن کو نکھارنے کا ’’دھوپ میں جلنے والو!آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا‘‘ وہی جو فراز نے کہا تھا کہ شکوۂ طلت شب سے تو کہیں بہتر تھا۔اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے‘‘ لطف کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پیارے خان صاحب نے بھی یہی کچھ کرتے ساڑھے تین سال گزار دیے کہ کھا گئے لٹیرے سب کچھ‘ خزانہ خالی کر دیا اور یہ کہ سڑکیں بنانا ترقی نہیں تھی تعلیمی ادارے بناتے‘ پھر منی لانڈرنگ اور پتہ نہیں کیا کچھ کہ انہیں خزانہ یکسر خالی ملا ۔اب شہباز شریف اینڈ پارٹی نے بھی یہی رونا دھونا لگا رکھا ہے کہ خان صاحب انہیں آئی ایم ایف کے سامنے ڈال گئے اور آئی ایم ایف نے ان کے پائوں میں زنجیر ڈال دی ہے۔پھر اپنے دوست انور ملک کا شعر یاد آ گیا: جب بھی آتا ہے مرے جی میں رہائی کا خیال وہ مرے پائوں کی زنجیر ہلا دیتے ہیں اچھا پہلے وہ سنجیدہ بات تو ہو جائے جس کا میں نے آغاز میں تذکرہ کیا تھا۔میرے بیٹے عزیر بن سعد کی آنکھ میں سوزش ہوئی تو ڈاکٹر محمد اکرم صاحب سے رجوع کیا ٹیسٹ کروانا پڑے تو ایک ٹیسٹ مثبت نکل آیا جس کے لئے پنسلین کے انجکشن درکار تھے۔ہمیں پہلے ہی مختلف جگہ سے پتہ چلا کہ یہ انجکشن اگرچہ سستے ہیں مگر یہ مل جائیں تو غنیمت ہے۔مختصر یہ کہ میں چار پانچ گھنٹے تک گاڑی میں بیٹے کو ساتھ لئے گھومتا رہا۔ہر جگہ سے ایک ہی جواباً کہ شارٹ ہیں ان انجکشن کا متبادل بھی کوئی نہ بتائے۔آخر کار امید بر آئی کہ ایک جگہ سے دستیاب ہونگے۔آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ انسان کو کس قدر اذیت ہوئی ہے۔صرف پنسلین ہی نہیں ٹیگرال اور کچھ دوسری دوائیاں بھی مارکیٹ سے غائب ہیں۔بعض تو قیمت بڑھنے کے بعد مارکیٹ میں آ جاتی ہیں۔میڈیکل سٹور والے سے بات ہوئی تو بتانے لگا کہ کچھ دوائیاں تو ایک ڈبی میں چار پتوں کی بجائے تین پتے کر دیے گئے ہیں اور قیمت وہی۔ سوال یہ ہے کہ یہ احتجاج کس کے سامنے کریں کس سے بات کریں۔پنجاب میں تو وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہیں وہ بھی جھول رہے ہیں کہ کس وقت اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ کوئی تو ایسی جگہ ہو جہاں سے کسی بھی قیمت پر دوائیاں دستیاب ہوں۔ کتنی دکھ کی باتیں ہیں ہمارے مسیحا بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔صرف ایک مثال کہ وہ پیسے تو نہیں چارسو ہی لیتے ہیں ایک وزٹ کے اور دوائی بھی کوئی ہوم میڈ قسم کی دے دیتے ہیں۔اگر وہ آپ کو ساتھ ہی اینٹی بایوٹک دیں تو سمجھ جائیں کہ یہ کہیں پرائیویٹ کمپنی سے اعزازی سیمپل آیا ہو گا اور یہ سیمپل اکثر بے اثر ہی نکلتے ہیں۔آپ کہتے ہوں گے کہ میں ادویات کا چکر لے کے بیٹھ گیا ہوں۔ صاحبو! معاملات بری طرح بگڑ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے نواز شریف کے دور میں ان کے اقدام پر لکھا تھا کہ انہوں نے بچوں کے بسکٹ تک مہنگے کر دیے تھے لیکن اب تو حد ہی ہو گئی ہے بچوں ے بسکٹ کا جو پیکٹ بیس روپے کا تھا وہ چالیس روپے کا کر دیا گیا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھائی سوفیصد بڑھوتری کس چکر میں ہے۔گوالا ہے تو فی کلو 170روپے سے مزید بڑھانے کے چکر میں ہے اگر نہیں بڑھائیں گے تو دودھ مزید پتلا ہوتا چلا جائے گا حتیٰ کہ پانی کا رنگ دودھ پر غالب آ جائے گا۔نتیجتاً لوگ دودھ کے لئے بازار کا رخ کرتے ہیں جہاں دو گڑویوں کے ساتھ ایک گڑوی فری مل رہی ہے۔اللہ جانے کہ وہ کیا بلا ہو گی ایک سو بیس روپے بھی ملے اور ساتھ گڑوی فری۔یہ لوگوں کو کیا پلا رہے ہیں۔وہی کیمیکلز ملاوٹ کی کوئی سزا تو ہے ہی نہیں۔ملاوٹ کو یہ لوگ آرٹ سمجھتے ہیں۔سب اللہ توکل چل رہا ہے۔مگر کسی کا اللہ پر توکل نہیں کہ بغیر ملاوٹ کے کاروبار کر لے۔اب اور کچھ نہیں ہو رہا۔صرف نواز شریف کے واپس آنے کا انتظار ہو رہا ہے۔ویسے کمال ہی تو ہے کہ ساری سیاست نواز شریف کے گرد گھومتی تھی پھر مرکز عمران خاں بنے رہے اور اب ایک مرتبہ پھر نواز شریف ایسے واپس آ رہے ہیں جیسے ٹارزن کی واپسی ہو۔ٹیسٹ کے طور پر سلمان شہباز واپس آ چکے ہیں اور دھوئیں دار تقریریں بھی کر رہے ہیں۔ہوا ان کے موافق ہے رانا ثناء اللہ کیس سے بری ہونے کے بعد اور زیادہ تیز ہو گئے ہیں کہ خان صاحب کی صد فیصد نااہلی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔بات ہو رہی تھی نواز شریف کی کہ اب ان کی واپسی پر پی ٹی آئی کیس کرنے کا اہتمام کرے گی کہ ان کی سزا کہیں معطل نہ ہو جائے۔گویا اب پی ٹی آئی کا اصل ٹارگٹ نواز شریف کو سزا دلوانا ہے جو وہ اپنے دور میں بھی نہیں کر سکے اور بھیجنے والوں کو انہیں لندن بھیجنا پڑا۔ شجاعت صاحب کی بات پسند آئی کہ انہوں نے عمران خاں کو مشورہ دیا تھا کہ اپنا ایجنڈا معیشت رکھیں تو وہ ان کے ساتھ ہیں۔اس وقت بھی عمران خاں اگر اسمبلیوں میں آ کر حکومت کے اقدام کو نشانہ بنائیں تو کامیابی مل سکتی ہے۔اپنا کوئی پروگرام عوام کے سامنے رکھیں۔مصیبمت یہ ہے کہ خان صاحب اپنے موقف سے ہٹنا نہیں چاہتے کہ ن لیگ وغیرہ سے دشمنی ہی ان کی سیاست کی اساس ہے۔تنگ آ کر ن لیگ بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے عمران کی پرانی لغزش کو تازہ کر رہے ہیں۔آپ سمجھ گئے ہونگے۔ایسے کام کرنے میں ن لیگ پہلے بھی اچھی خاصی شہرت رکھتی ہے۔فوزیہ شیخ کا ایک خوبصورت ترین شعر: ہر آنکھ اپنے عیب سے ہوتی ہے بے خبر ہر ہاتھ کھینچتا ہے گریبان اور کا