ایسی شہرت و عزت جو الیکٹرانک میڈیا سے ملے سراب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جو اب اس دنیا میں نہیں رہے‘ان کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ناکامی کو دل میں بٹھانے اور کامیابی کو دماغ میں جگہ دینے سے انسان کا حوصلہ شکستہ ہو جا تا ہے ۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی زندگی میں ہم سب کے سیکھنے اور سمجھنے کے بہت سے پہلو ہیں۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے جب ایک نجی چینل سے پروگرام عالم آن لائن سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو ان کے ملنے جلنے والے بتاتے ہیں کہ وہ نہایت منکسر مزاج‘ اپنے سینئرز کا احترام کرنے والے‘ چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے والے ایک ایسے نوجوان تھے جن میں ایک بھلے اور ستھرے انسان کی خوبو پائی جاتی تھی۔اپنے ان ہی اوصاف کی بنا پر قدرت ان پر مہربان ہوئی اور وہ تیزی سے شہرت اور کامیابی کے زینے طے کرتے چلے گئے۔ عامر لیاقت کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جس کے متعلقین کے لئے شہرت کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ان کے نانا مرحوم سردار علی صابری قیام پاکستان سے قبل ’’انجام‘‘ دہلی سے منسلک تھے اور اداریہ لکھنے پر مامور تھے۔انجام مسلم لیگ کا حامی اخبار تھا‘ صابری مرحوم اپنے پرجوش اداریوں کے ذریعے مسلم لیگ کے مشن کو تقویت پہنچاتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اخبار جنگ سے وابستہ ہو گئے‘ میر صاحب ان سے دلی سے ہی واقف تھے پھر جب اخبار جہاں نکلا تو صابری مرحوم اس رسالے میں لوگوں کی قسمت کے احوال بتانے لگے۔ ان کی بیٹی اور عامر لیاقت کی والدہ محمودہ سلطانہ بھی سیاسی اور صحافتی طور پر متحرک خاتون تھیں اور کراچی کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں شہرت رکھتی تھیں۔عامر لیاقت کے والد شیخ لیاقت حسین بھی مسلم لیگ کے جانے پہچانے رہنما تھے جو بعد میں ایم کیو ایم سے وابستہ ہو گئے اور غالباً ان ہی کے زیر اثر عامر لیاقت حسین بھی اس تنظیم کا حصہ بن گئے۔لیکن وہ اپنے انداز فکر کے اعتبار سے کبھی اس تنظیم میں کھپتے دکھائی نہیں دیے۔ عامر کا مذہبی علوم کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور حافظہ بھی بہت اچھا تھا۔اس لئے بھی نسلی اور لسانی حوالوں سے سوچنا اور ویسا ہی زاویہ نگاہ رکھنا ان کے لئے کبھی ممکن نہیں ہوا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ عالم آن لائن کا اینکر بننے سے پہلے وہ ایم کیو ایم کے ایک حامی اخبار پرچم سے منسلک ہو کر وہ اس تنظیم کے حق میں اور اس کے دفاع میں لکھتے رہے۔لیکن ٹی وی کے مذہبی پروگرام سے ان کی شناخت ایک مذہبی آدمی کی ہو گئی اور پھر انہیں مذہبی اسکالر بھی لکھا اور کہا جانے لگا۔ مذہبی پروگرام سے انہیں ملک گیر شہرت ملی۔عامر لیاقت کو بولنے کا فن آتا تھا۔وہ بہت اچھے خطیب اور مقرر بھی تھے۔ آواز بھی دل گداز تھی۔چنانچہ انہوں نے ٹی وی چینل پر ہی نعت خوانی بھی شروع کر دی جس سے ان کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے۔پھر انہوں نے رمضان ٹرانسمیشن کا ڈول ڈالا اور اس پروگرام کے وہ طارق عزیز بن گئے جو کبھی پی ٹی وی پہ نیلام گھر کیا کرتے تھے۔ وہ اس پروگرام میں اجتماعی دعا بھی کراتے تھے جو اس زمانے میں ایک نئی چیز تھی۔ بے شک وہ موثر انداز میں دعا مانگتے اور بندگان خدا کو متاثر کر دیا کرتے تھے۔اس چینل سے نکل کر عامر لیاقت مختلف چینلوں میں سفر کرتے ہوئے ایک ایسی پتنگ بن گئے جو کٹ جائے اور ہوا کے دوش پہ ڈولتے ڈگمگاتے اس کی خبر نہ دے کہ وہ کہاں جا گرے گی۔انہوں نے اپنا سیاسی قبلہ بھی تبدیل کر لیا۔ ایم کیو ایم کے زوال کے بعد وہ پی ٹی آئی میں چلے گئے۔پہلے وہ ایم کیو ایم کی نشست پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تو بعد میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ہو گئے۔ وہ وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے لیکن عوامی خدمت کا کوئی کام بھی ان سے منسوب نہ ہو سکا۔ان کی شخصیت کو پہلا دھچکا ایک ویڈیو سے لگا جو ان کے پہلے ٹی وی چینل کے چھوڑنے کے بعد وائرل ہوئی ۔ اگر وہ میڈیا پر مذہبی اسکالر کے طور پر مشہور نہ ہوتے تو شاید یہ ویڈیو ان کے امیج کو مسخ نہ کر تی لیکن وہ عام ناظرین میں ایک مذہبی شخصیت‘ ایک نعت خواں کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے۔وہ چینل پر پروگرام کرنے کے علاوہ اخبار میں کالم نویسی بھی کرنے لگے تھے۔اس سے بھی ان کے وقار میں اضافہ ہوا تھا لیکن شہرت میں ایک بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ اس سے آدمی بعض اوقات عدم توازن کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ میڈیا نے انہیں شہرت کے علاوہ دولت سے بھی مالا مال کر دیا تھا۔معاملہ ان کی شخصیت کا دو آتشہ ہو گیا تھا۔پھر بعض ٹی وی پروگرام انہوں نے ایسے کیے کہ ان کے مذہبی امیج سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ پھر ان کی تین شادیاں بھی موضوع بحث بنتی رہیں۔ تیسری شادی کی ناکامی نے انہیں بہت دل شکستہ کر دیا۔سوشل میڈیا پہ ان کے خلاف سخت ردعمل آیا۔تیسری بیوی نے ان پر نشہ کرنے کے الزامات لگائے۔ ان سب چیزوں نے انہیں مضمحل کر کے رکھ دیا۔ اب عامر لیاقت مرحوم اپنے رب سے جاملے ہیں۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے، اور اگلی زندگی میںکے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔آمین ٭٭٭٭٭