اس دنیا میں جو آیا ہے واپس جانے ہی کے لئے آیا ہے لیکن بعض شخصیات کا واپس جانا صدمہ انگیز ہوتا ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بے شک ایسی ہی شخصیتوں میں شامل تھے۔اردو زبان و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔جب تک جیے اسی زبان کی ترقی اور اسے پرمایہ بنانے کے لئے جیے۔ گوپی چند نارنگ شعور کی آنکھ کھولنے کے بعد اردو کا دامن تھام لیا اور اپنی پوری علمی و ادبی زندگی اس زبان کی نذر کر دی۔وہ اردو کے ایک اہم نقاد و محقق اور متبحر اسکالر تھے کسی بھی ادبی محفل میں جب بولنے کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنی شیریں بیانی سے حاضری محفل پہ جادو کر دیتے۔مجھے یاد ہے آج سے تیس پینتیس سال قبل میں نے انہیں کراچی کے آرٹس کونسل میں تقریر کرتے سنا تھا۔اس روز آرٹس کونسل کے ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔اسٹیج پہ دھرے روسٹرم کے مائیک سے ایک آواز جسے کم سے کم لفظوں میں جادوئی آواز کہوں تو کسی طرح غلط نہ ہو گا۔ خوب صورت مدھر لفظوں اور معانی کا ایک طلسم تھا جس نے حاضرین جلسہ کو باندھ رکھا تھا۔نہ جنبش ہی ہوتی تھی اور نہ توجہ ہی ہٹتی تھی۔میں نے اچھے اچھے مقرروں کی تقریریں سنی ہیں اور ایک ہی تاثر قائم کیا ہے کہ مقررین اور خطیب حضرات لفظوں سے کھیلتے ہیں‘ ہم قافیہ الفاظ بیان میں زور پیدا کرنے کے لئے کچھ جذباتیت کچھ آواز کا زیرو بم‘تقریر کیا ہوتی ہے مثل پیاز کے ہوتی ہے‘ چھیلتے جائو‘ پرتیں اتارتے جائو اندر سے نکلتا کچھ نہیں۔لیکن نارنگ صاحب کی تقریر آواز‘ انداز اور معانی ہر اعتبار سے پراثر سحر انگیز اور باکمال تھی۔تقریر ختم ہوئی تو ہال پہ چھایا گویا سحر تھا جو ٹوٹ گیا اور ڈاکٹر نارنگ کو قتیلان خطاب نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔یہ معاملہ اسی ایک محفل کا نہ تھا۔یہاں ایک واقعے کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔میں نے ان کا ایک انٹرویو کیا تھا جو میرے انٹرویوز کی کتاب’ یہ صورت گھر کچھ خوابوں کے ‘میں شامل ہے۔میں نے ان سے پوچھا کہ ایک تاثر یہ ہے کہ آپ کی تقریر‘ تحریر سے زیادہ پر اثر ہوتی ہے، اس کا انہوں نے نہایت دلچسپ جواب دیا۔فرمانے لگے آپ کو شاید نہیں معلوم کہ میں اپنے اکثر مضامین لکھتا نہیں ڈکٹیٹ کراتا ہوں کچھ اور وضاحتیں بھی انہوں نے کیں۔لیکن یہ سوال ان کے اندر کہیں جا کر چبھ گیا۔بھارت جا کر انہوں نے اسی سوال کے جواب میں ایک وضاحتی مضمون لکھ کر ایک ادبی رسالے میں چھپوایا۔مضمون میں میرے انٹرویو کا تذکرہ تو نہیں تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپنی تحریر کو تقریر کے مقابلے میں غیر موثر بتایا جانا ان کے لئے قابل قبول نہ تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہ تھی اس لئے کہ تحریر بہر حال تقریر پر مقدم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نارنگ کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ بہت متنوع تھا‘ خواہ موضوع لسانیات کا ہو تنقید میں غالیبات ‘ اقبالیات ساختیات اور اسلوبیات کا ہو، ان کا علم گہرا، نظر واضح اور خیالات الجھائو سے پاک ہوتے تھے۔البتہ ان کی خصوصی دلچسپی افسانے کی صنف میں کہیں زیادہ تھی۔اخصوصیت سے ان کی نظر قدیم حکایات، داستانوں اور قصے کہانیوں سے لے کر جدید افسانے تک پر تھی۔اس زمانے میں جب جدید علامتی افسانے پر تنقید و اعتراضات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔یہ ڈاکٹر نارنگ ہی تھے جنہوں نے نئے افسانے کا دفاع کیا اور اس کے معنی و مفاہیم آشکار کرنے کے لئے نہ صرف مضامین لکھے بلکہ اردو افسانے پر عالمی سیمینار کیا اور اس میں پڑھے گئے مقالات کو مزید اضافوں کے ساتھ ضخیم کتابوں کی صورت میں مرتب کر کے شائع کیا۔ ڈاکٹر نارنگ نے تحقیق‘ تنقید‘ لسانیات غرض جس صنف اور جس موضوع پر بھی کوئی علمی کام کیا ہے چاہے وہ طبع زاد ہو یا جمع و ترتیب کا ،‘ ان کی معنویت اور قدرو قیمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر نارنگ کی شخصیت کا ایک اور پہلو جس کا تذکرہ ضروری ہے وہ ان کی انتظامی صلاحیت تھی۔اپنی اسی صلاحیت سے انہوں نے تدریس کے پیشے سے وابستہ رہتے ہوئے بڑے بڑے علمی اجتماعات اور سیمینار منعقد کرائے۔مثلاً جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کو انہوں نے اتنا متحرک اور فعال بنا دیا تھا کہ ان کی زیر نگرانی انہیں سیمینار 1975ء جدید اردو ادب میں زبان کا تخلیقی استعمال سیمینار(1976) اقبال سیمینار 1977 لغت نویسی سیمینار 1978ء عابد حسین سیمینار 1980ء کے علاوہ خدائے سخن میر تقی میر سیمینار بھی منعقد کرایا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ 11فروری 1931ء کو دکی بلوچستان میں پیدا ہوئے۔تعلیم کے بعد دہلی منتقل ہو گئے اور یہیں سے 1954ء میں دلی کالج سے اردو کے مضمون میں ایم اے کی سند لی، ساتھ ہی فارسی میں آنرز کیا۔1958ء میں دہلی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد سینٹ اسٹیفن کالج سے بطور استاد وابستہ ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہو گئے۔امریکی جامعات میں اردو زبان و ادب میں تدریس کا فریضہ انجام دیا ان میں وسکانسن یونیورسٹی اور منی سوٹا یونیورسٹی شامل ہیں۔آنجہانی نارنگ نے لسانیات کی اعلیٰ تعلیم انڈیانایونیورسٹی سے پائی۔انہیں بھارت میں ادبی و علمی خدمات پر مختلف اعزازات و انعامات سے نوازا گیا اور پاکستان میں اقبال صدی کی تقریبات کے موقع پر حکومت نے انہیں تمغہ امتیاز دیا۔ میں 1993ء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کیلئے دلی گیا تو اندازہ ہوا کہ اپنے ملک کی طرح وہاں بھی ادبی گروہ بندیاں ہیں اور ادیب حضرات ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔معلوم ہوا کہ نارنگ صاحب کے جہاں قدر داں بہت ہیں وہاں مخالفن اور شکایتیں بھی کچھ کم نہیں۔مجھے ان مخالفتوں سے کیا لینا دینا تھا۔میرے لئے یہی بہت تھا کہ اردو زبان کو ہندوستان میں ڈاکٹر نارنگ کی صورت میں ایک محافظ‘ ایک عاشق اور ایک خدمت گزار میسر تھا۔افسوس کہ اردو زبان کا ایک ہندو عاشق اورمخلص و جانثار اٹھ گیا۔ بھارت آج جس مسلم دشمنی کے جانکاہ دور سے گزر رہا ہے اس میں ڈاکٹر نارنگ جیسی شخصیت کا جو ہندو مسلم اتحاد کا ایک پل تھی گزر جانا افسوسناک امر ہے۔غالباً وہاں کے انتہا پسندانہ ماحول ہی کا سبب تھا جس نے ڈاکٹر نارنگ کو امریکا میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کیا اور وہیں سے انہوں نے اس کلفت بھری دنیا کو خیر باد کہا۔ڈاکٹر نارنگ نے غالب اور اقبال جیسی نابغہ شعری شخصیات پر ایسی بابصیرت تنقیدی کتابیں مرتب کیں اور لکھیں جس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔اقبال کی شاعری کا اسلامی رنگ ان کے لکھنے میں کبھی آڑے نہیں آیا۔ ’’اقبال کا فن‘‘ ان کی مرتبہ غیر معمولی کتاب ہے جس سے اقبال کو بطور شاعر سمجھنے میں مدد ملتی ہے غالب پر ان کی کتاب ’’غالب معنی آفرینی‘ جدلیاتی وضع‘ شونیتا ارو شعریات‘‘ ایک نئے پہلو سے اس عظیم شاعر کی عظمت کا در کھولتی ہے۔ڈاکٹر نارنگ گنگا جمنی تہذیب کے ایک اہم وارث تھے جن کی موت پر یہ تہذیب بھی افسردہ ہے۔