مبارک ہو! نئی ’’من چاہی‘‘صوبائی اور مرکزی حکومتیں بن رہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے نو منتخب اراکین نے حلف اُٹھا لیا ہے، جبکہ سنی اتحاد کونسل (تحریک انصاف) کے اراکین اپوزیشن میں بیٹھنے کی تیاری میں ہیں۔ اُمید ہے 9مئی کو جواز بنا کر جو اقدامات کیے گئے ، آہستہ آہستہ وہ بھی واپس ہو جائیں گے۔ چلیں سبھی نے مان لیا کہ 9مئی کا واقعہ غلط ہوا، اُس کی مذمت کرنی چاہیے۔ لیکن جو کچھ 8فروری کو ہوا کیا اُس کو Appreciateنہیں کرنا چاہیے؟ جس شخص کو عوام الناس نے مینڈیٹ دیا، کیا اُسے جیل سے باہر نہیں لانا چاہیے؟ چلیں اُسے باہر نہ لائیں، مگر کیا اُسے بنی گالہ شفٹ نہیں کرنا چاہیے؟ یعنی اگر وہ دہشت گرد نہیں ہے اور عوام کا پسندیدہ لیڈر ہے تو اُسے پہلے مرحلے میں گھر میں نظر بند کر دینا چاہیے۔ ایسا کرنے سے یقینا ملک میں مفاہمتی فضاء قائم ہو سکی۔ ایسا کب نہیں ہوا کہ عام معافی کا اعلان کیا گیا ہو اور اُس کے بہتر نتائج نہ ملے ہوں؟ آپ تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لیںآپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بڑا دل رکھ کر عام معافی کا اعلان کیا جائے تو اُس کے مثبت نتائج ہی ملتے ہیں۔ فتح مکہ کے واقعہ کو ہی لے لیجیے کہ جب آپؐ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اور مفتوحین کے ساتھ کس قدر محبت شفقت اور معافی کا معاملہ فرمایا کہ جب مہاجرین مکہ دس ہزار لشکر جرار لے کر لشکر کفر و شرک پر چڑھائی کرتے ہیں اور فرطِ مسرت میں ڈوبے ہوئے اس عظیم اسلامی لشکر سے آواز آتی ہے کہ آج بدلے کا دن ہے اور خوب بدلہ لیں گے، آج ہم سمیعہؓ کی آہوں اور صہیبؓ کی سسکیوں کا بدلہ لیں گے۔ آج ہم حضرت بلال حبشیؓ کی چیخوں کا بھی بدلہ لیں گے۔ آج کوئی نہیں بچے گا۔ ہر کوئی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ مگر ہمارے کریم آقا ﷺ نے سب پر نگاہِ رحمت ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’بولو! تم لوگوں کو کچھ معلوم ہے، آج میں (محمد ﷺ) تم لوگوں سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘یہ سوال سن کر سب مجرم کانپ اُٹھے اور اُن پہ لرزہ طاری ہوگیا، کیوں کہ ماضی قریب میں آپؐ پر اپنے ہاتھوں اور زبان سے کیے ہوئے ظلم و ستم ایک ایک کرکے سب یاد آرہے تھے۔ سب کے سب بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سر جھکا کر یک زبان ہو کر بولے: یارسول اللہ ﷺ! آپؐ کریم بھائی اور کریم باپ کے بیٹے ہیں۔ یہ جواب سُن کر رحمتِ عالم ﷺ نے اپنے دل نشین اور کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا: ’’آج میں وہ کہتا ہوں، جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ سلام نے کہا تھا کہ آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔‘‘آپ ؐنے عفو عام کا اعلان فرما دیا، معافی کا اعلان سنتے ہی مجرموں کی آنکھیں فرطِ جذبات سے اشک بار ہو گئیں اور زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہوگیا۔ ان معافی پانے والوں میں کیسے کیسے لوگ تھے، ذرا تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیے۔پھر صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ چلیں آپ دور نہ جائیں گزشتہ سال سری لنکا میں تاریخ کے بدترین معاشی بحران کے باعث ہونے والے ملک گیر ہنگاموں کے دوران ہزاروں افراد نے صدارتی محل پر بھی ہلہ بولا تھا۔ اس افراتفری کے دوران سابق صدر گوتابایا راجا پکسے محل کے پچھلے دروازے سے نکل کر ملک سے باہر فرار ہوگئے تھے جب کہ ہنگامہ آرائی کے دوران وہاں سے نوادرات بھی چوری ہوئی تھیں اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی ان نوادرات کے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں سامنے آئی تھیں۔ پھر آپ 2021ء میں افغانستان میں بننے والی طالبان کی حکومت کو دیکھ لیں۔۔۔ طالبان نے 20سال کون کون سے امریکی ظلم نہیں سہے مگر اُس نے اقتدار میں آتے ہی قومی ہم آہنگی کا اعلان کیا۔ طاقت میں واپس آنے کے بعد طالبان نے برداشت اور اعتدال کی فضاء قائم کرتے ہوئے سب سے پہلے سرکاری ملازمین کیلئے عام معافی کا اعلان کیا۔پھر انہوں نے اُن کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جو امریکی پشت پناہی میں چلنے والی حکومت کے ساتھ ہونے کی وجہ سے سزا کے ڈر سے افغانستان سے بھاگنے کی کوششمیں تھے۔اس کا فائدہ یہ ہو ا کہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے افغان حکومت کو تسلیم کیا اور کہا کہ بس اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ افغانستان دہشتگردی کی آماجگاہ نہ بن جائے۔پھر آپ بلوچستان کی تاریخ پڑھ لیں، ہم نے اُن کے لیے کتنی بار عام معافی کا اعلان کیا ہے؟ بلوچ قوم پرستی پر مبنی شدت پسند تحریکیں قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر دور میں کبھی نرم تو کبھی گرم چلتی رہی ہیں۔پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بلوچ قوم پرست بلوچستان کی خودمختاری اور سیاسی حقوق کے لیے اسی قسم کی تحریکیں چلا چکے ہیں جو پانچ سے چھ سال تک جاری رہیں۔ ان تحریکوں میں گوریلا کاروائیاں کی گئیں جبکہ جواب میں حکومت نے انہیں دبانے کے لیے فوجی کارروائیاں کیں، بلوچ رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، بلوچ آبادی کی نقل مکانی ہوئی، قوم پرستوں کو سزائیں دی گئیں اور بالآخر عام معافی کا اعلان کردیا گیا اور اس تحریک کی شدت کچھ عرصہ کے لیے ٹھنڈی پڑ گئی۔پھر بغاوتیں ہوتی رہیں، کچھ غلطیاں مقتدرہ سے بھی ہوئیں لیکن بعد ازاں دوسری شدت پسند بلوچ تحریک کا خاتمہ جنرل ایوب کی جگہ لینے والے جنرل یحییٰ خان نے بلوچ قوم پرستوں کو عام معافی دے کر کیا۔ سب بلوچ قوم پرستوں کو جیلوں سے نکال دیا گیا اور سرداروں کی ضبط کی گئی جاگیریں انہیں واپس کردی گئیں۔ اس پس منظر میں 1970کے عام انتخابات ہوئے جو ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرائے جانے والے پہلے انتخابات تھے۔ بلوچ اور پختون قوم پرستوں کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے پورے صوبے کے نشستیں بھاری اکثریت سے جیت لیں۔ پھر جس طرح یحییٰ خان نے ایوب دور میں کیے گئے آپریشن کو بند کرکے بلوچ قوم پرستوں کو عام معافی دی تھی جنرل ضیاء الحق نے بھی ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور انیس سو اٹھہتر تک پہاڑوں میں چھپے لوگ باہر نکلے اور افعانستان سے واپس آئے۔نواب خیر بخش مری 6ہزار ساتھیوں سمیت افغانستان نقل مکانی کرگئے اور قلات غزنی کے علاقہ میں مقیم ہوگئے اور کمیونسٹ حکمران نجیب اللہ کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد پاکستان واپس آگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مری قبیلہ کی آبادکاری اور بحالی کے لیے حکومت نے فنڈز فراہم کیے۔ الغرض نیلسن مینڈیلا کہا کرتے تھے کہ عظیم لوگ اعلیٰ مقصد کیلئے معاف کرنے سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے، اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کو اپنا شراکت کار بنا لیں۔یہی بات امریکہ کے سولہویں صدر ابراہام لنکن بھی کہا کرتے تھے کہ میں اپنے دشمن کو دوست بناکر دشمنی ختم کرنے کا قائل ہوں، عظیم امریکی لیڈر ابراہام لنکن نے سیاہ فام غلامی کے خاتمے کیلئے اپنا بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ میں ہر فورم پر اپنا یہ موقف پیش کرتا ہوں کہ کامیابیوں کے حصول کیلئے ہرمذہب کی اعلیٰ تعلیمات اور تاریخ کے عظیم انسانوں کی زندگیاںہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ لہٰذامیں پھر یہی کہوں گا، کہ ریاست عام معافی کا اعلان کرے تاکہ ملک آگے بڑھ سکے!