رانا نذر الرحمان کی یادداشتوں پر لکھا تو طاہر علی بندیشہ سمیت بہت سے قارئین نے مزید کی فرمائش کی۔میں خود یہ سمجھتا ہوں کہ کسی عہد کی مربوط تاریخ اور پس منظر کی تفصیلات نہ ہوں تو اس زمانے کی آپ بیتیوں کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔اس سے کئی گرہیں کھل جاتی ہیں۔رانا نذرالرحمان نے زندگی کا پہلا حصہ سخت محنت میں گزارا۔بہت جلد اللہ نے کامیابی دی۔ملک کے بڑے اور نامور لوگ ان کے معترف تھے۔ان کی سرگزشت میں مجھے یہ پہلو اچھا لگا کہ وہ کسی پلاٹ ، اراضی یا علاقے کا تذکرہ کرتے وقت اس کی قدیمی معلومات تک نکال لاتے ہیں۔افسوس ،آج حیات ہوتے تو لاہور کی کتنی ہی جگہیں ہیں جن کے بارے میں وہ بتا سکتے تھے۔رانا صاحب لکھتے ہیں : ’’ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد کا ایک گائوں’’دلاور چیمہ‘‘ ہے۔ میں اسی گائوں میں 18جنوری 1926ء کو پیدا ہوا۔ خورشید قصوری کے والد اور دادا بھی اسی گائوں سے تھے اور بعد میں قصور آباد ہو گئے۔ جن دنوں معین قریشی مختصر مدت کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے والے تھے تو لوگوں نے گلہ کیا کہ قریشی صاحب نے اتنے بڑے منصب پر رہ کر دلاور چیمہ کا کچھ نہیں سنوارا حالانکہ ان کے دادا اور دادی یہاں آسودہ خاک ہیں۔ ’’1929ء میں سائمن کمیشن پنجاب آیا۔ خورشید قصوری کے تایا مولانا غلام محی الدین کمیشن سے مذاکرات کے حامی تھے۔ اس وقت میری عمر تین سال تھی۔ میں نے دوسرے بچوں کے ساتھ سائمن کمیشن کو گلدستہ پیش کیا۔ غالباً میں سب بچوں سے زیادہ خوبصورت تھا‘‘۔ ’’چودھری نذر محمد ہمارے گائوں کے ذیلدار تھے۔ سفید پوش کہلاتے‘ وہی سائمن کے میزبان تھے۔ انہیں اس میزبانی کے انعام کے طور پر چک 17اے ایل میں آٹھ مربع زمین ملی۔ چودھری نذر محمد کی اکلوتی بیٹی کی شادی پنجابی کے معروف ادیب اور دانشور فخر زمان سے ہوئی۔ وہ قتل ہو گئی تو اس کا الزام فخر زمان پر لگا مگر بعد میںوہ بری ہو گیا۔‘‘ ’’1941ء کی بات ہے۔ والد صاحب نے دھان کی کٹائی کے موسم میں گاجر گولہ کے مقام پر جلیبیوں کا کاروبار کرنے کے لئے ایک حلوائی سے بات کی۔ دھان کی کٹائی اور پھنڈائی کا کام کرتے ہوئے مزدور جلیبیاں شوق سے کھاتے ہیں۔ ایک وقت میں 30,30کلو تک کھا جاتے ہیں۔ جلیبی کھانے کے شغل کو ’’جلیب‘‘ کہتے ہیں۔ جلیبیاں کھانے کا باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے۔‘‘ ’’ایف سی کالج کے نزدیک دو معروف شخصیات کی کوٹھیاں تھیں۔ ایک سر مراتب علی شاہ کی اور دوسری لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس سر شادی لال کی۔ تقسیم کے دوران سرشادی لال کی کوٹھی خالی ہو گئی تو اسے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صوفی نے اپنے نام الاٹ کرا لیا۔ ان کا بھانجا ظفر الاحسن میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ میں نے بالائی منزل کرایہ پر لے لی۔ دوسرے روز دعوت ولیمہ تھی ۔ میں دکان پر بیٹھا تھا کہ بیگم کا ٹیلیفون آیا کہ عین بارہ بجے مولانا مودودی پہنچ گئے ہیں۔ میں بھاگا بھاگا گھر آیا۔ مولانا وقت کے عین مطابق تقریبات میں پہنچ جاتے تھے۔‘‘ ’’سلامیوں سے مجھے 1300روپے ملے۔ اس وقت لاہور میں تین سکیمیں چل رہی تھیں۔ ایک شادباغ‘ دوسری سمن آباد اور تیسری گلبرگ۔ گلبرگ میں 10کنال کا پلاٹ 9ہزار میں ملتا تھا۔ سمن آباد متوسط طبقے کی آبادی بن رہی تھی۔ ایک کنال کی قیمت 2300۔میں نے 191نمبر پلاٹ لال کو ارٹرسمن آباد کے سامنے خرید لیا‘‘۔ ’’مسلم لیگ کی اندرونی دھڑے بندی کی سیاست نے پاکستان میں جمہوری عمل کو پنپنے نہ دیا۔ بدقسمتی سے پنجاب ہی میں سب سے پہلے یہ مکروہ عمل شروع ہوا۔ قائد اعظم حیات تھے۔ ان کے سمجھانے کے باوجود افتخار حسین ممدوٹ اور میاں ممتاز خان دولتانہ باہم مل کر چلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے گئے۔ ’’جھرلو‘‘ کی اصطلاح نے انہی انتخابات کی کوکھ سے جنم لیا‘‘۔ ’’ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسلم ریاض حسین سپریم کورٹ کے جج تھے۔ لاہور تشریف لائے۔ مجھے اردلی بھیج کر چیمبر میں بلایا اور کہا آپ نے موضع بھوبتیاں رائے ونڈ روڈ پر ایک ہائوسنگ سکیم بنائی ہے۔(یہ سکیم اب تک ہمارے نائینٹی ٹو نیوز کے آفس کے سامنے غیر آباد پڑی ہے) وہاں ہماری 5مربع اراضی ہے۔ اسے بھی شامل کر لیں۔ ہماری ایبٹ آباد والی زمین حکومت نے ایکوائر کر لی ہے لیکن معاوضہ بہت کم دیا ہے۔ میں نے بتایا کہ میں نے کوئی سکیم نہیں بنائی۔ سرگودھا کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے ہاتھ زمین فروخت کی ہے لیکن محترم جج صاحب، اگر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے جج پراپرٹی ڈیلر بن جائیں تو یہاں ایل ڈی اے زمین ایکوائر نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔ عدلیہ کے اعلیٰ ججوں نے جوڈیشل کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی لمیٹڈ کے نام سے نہر کنارے ہائوسنگ سکیم بنائی ہے۔ اس میں بعض بیوگان کی اراضی ہے جو انہوں نے 48ہزار روپے فی کنال خریدی تھی لیکن ان کو دو اڑھائی ہزار دے کر ایکوائر کر لی گئی‘‘۔ ’’لیاقت علی خان کے خلاف پروپیگنڈہ کا طوفان تھا۔ یونیورسٹی گرائونڈ کے جلسے کا منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ تاحد نظر عوام کا سمندر۔ پنجاب مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹی ہوئی۔ ایک جلسہ کامیاب بنانے کو کوشاں اور دوسرا دھڑاخراب کرنے پر تلا ہوا تھا۔ لیاقت علی خان کی تقریر شروع ہوتے ہی سٹیج کے سامنے بیٹھے غنڈوں نے بیگم لیاقت علی خان کے متعلق مختلف فحش نعرے لگانے شروع کر دیے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا‘‘۔ ’’مشرقی پنجاب سے آنیوالے مہاجرین کے لئے بھارت میں چھوڑی ہوئی جائیدادوں کے بارے میں ثبوت کے طور پر محکمہ مال کے کاغذات پیش کرنا لازمی تھا۔ ہندوستان کے باقی علاقوں سے آنے والے مہاجرین محکمہ مال کے کاغذات پیش کرنے سے مستثنیٰ تھے۔ وہ کلیم کے ساتھ محض حلفیہ بیان داخل کرتے۔ جائیدادوں کی غلط الاٹمنٹوں کا راستہ یہاں سے کھلا‘‘۔ ’’پرانی انارکلی میں جہاں آج کل رانا چیمبر ہے۔ یہاں کپور تھلہ ہائوسنگ سکیم کا پلاٹ نمبر 18تھا جسے میں نے کوٹ رادھا کشن کے دو آڑھتیوں علی احمد وغیرہ سے باقاعدہ منافع دے کر خریدا تھا۔ انہوں نے لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ سے نیلامی میں خریدا تھا۔یہاں ایک پٹھان نے لکڑی کا ٹال بنا رکھا تھا۔ اس نے ڈاکٹر خاں صاحب کو شکایت کی کہ اسے پٹھان ہونے کی وجہ سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ڈاکٹر خان صاحب خود موقع پر آئے،ریکارڈ کی پڑتال کی تو ٹال والا جھوٹا ثابت ہوا،ڈاکٹر خان صاحب نے اسے خوب ڈانٹا اور اپنے ہاتھ سے لکڑیاں اٹھا اٹھا کر پلاٹ خالی کرایا۔‘‘ ’’معلوم نہیں علامہ مشرقی کی پکڑ دھکڑ کیوں ہوئی؟ لگتا یہ ہے کہ سکندر مرزا چاہتے تھے کہ کوئی رہنما ان کے آمرانہ رویوں کی مزاحمت کے قابل نہ رہے۔ بہرحال علامہ صاحب پر کوئی الزام عدالت میں ثابت نہ ہو سکا۔وہ رہا ہوئے لیکن اس اثناء میں قید و بند کی سختیوں نے ان کی صحت گرا دی‘ وہ قومی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے‘‘۔ (ختم شد)