رانا نذرالرحمان اور ان کی انجمن شہریان لاہور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔آج لاہور پہلے سے زیادہ آلودہ، بد اتنظامی کا شکار اور بے سمت تعمیرات کا نشانہ بن رہا ہے تو رانا صاحب کی انجمن شہریان لاہور یاد آتی ہے ۔جی چاہتاہے اسے از سر نو سرگرم کیا جائے ۔کوئی پندرہ سولہ سال پہلے گیلپ والوں نے ایک تقریب رکھی تھی۔ہم دونوں مدعو تھے ، جناح کیپ پہنے رانا نذرالرحمان بزرگی میں بھی مستعد نظر آئے، ان کی آواز مستحکم تھی۔ سرسری سا تعارف وہیں ہوا۔رانا نذرالرحمان آزادی کے دنوں میں ایک سرگرم نوجوان تھے۔انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور لاہور میں آزادی سے قبل کا سماج دیکھا۔رانا نذرالرحمان کے فرزند جناب زہیر رانا کی مہربانی کہ وہ میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتے اور اپنی رائے سے گاہے گاہے نوازتے ہیں ۔انہوں نے اپنے والد کی یادداشتوں پر مبنی کتاب’’ صبح کرنا شام کا‘‘ عنایت فرمائی۔لاہور آنے سے پہلے کا سفر،لاہور کے کئی کرداروں اور آبادیوں کا تعارف اور سیاسی تحریکوں کو جاننے کے لئے یہ کتاب بہت مفید معلوم ہوئی۔ ابھی دو نشستوں میں ڈھائی سو صفحات پڑھ سکا ہوں۔ واقعات کے ساتھ اس زمانے کا ماحول اور نفسیات قاری کو آسانی سے منتقل ہوتی جاتی ہیں۔سادہ زبان، مسجع و مقفا عبارات سے پاک۔کچھ واقعات مختصر طور پر پیش خدمت ہیں: ’’کنٹرولر آف امپورٹ ایکسپورٹ کے دفتر کے جاہ و جلال کا یہ عالم تھا کہ میاں محمد شریف جیسے صنعت کار وہاں جاتے اور کنٹرولر کے ڈرائیور ہلال شاہ کو پچاس روپے دیتے کہ دیکھ کر آئو ڈپٹی کنٹرولر مسٹر متین کا آج موڈ کیسا ہے‘‘۔ ’’صدر ایوب خان کے زمانے میں ادارہ قومی تعمیر نو قائم کیا گیا۔جس کے سربراہ بریگیڈیئر گلزار احمد تھے۔ لالہ موسیٰ میں ولیج ایڈ اکیڈمی کے محققین سے خطاب کے دوران بریگیڈیئر صاحب نے کہا: We will think and you will put it into practice....... سب سکالرز ہنس رہے تھے کہ بوٹوں والے سوچیں گے اور ریسرچ سکالر اس پر عمل کریں گے‘‘۔ ’’بلوکی سلیمانکی لنک کینال کی کھدائی کا ٹھیکہ میر ہستم خاں کو ملا تھا۔ محکمہ انہار کی طرف سے پری کوالیفکیشن درخواست میں ہستم خان نے ٹرانسپورٹ کی مد میں پانچ سو گدھے لکھ دئے۔دلچسپ بات یہ کہ ان گدھوں کو ٹرانسپورٹ مان کر ٹھیکہ ہستم خان کو دیدیا گیا‘‘۔ ’’1944ء میں حافظ آباد کو خیر آباد کہہ کر لاہور آ گیا۔ چوک دالگراں میں واقع خوشنویسوں کے ہوسٹل ’’ادارہ کتابت‘‘ میں رہائش مل گئی۔ پھر مختلف دفاتر کے طواف شروع کئے۔ ملازمت کی ایک موہوم امید پر ضلع خزانہ کے دفتر میں متعلقہ افسر کے کہنے پر پندرہ یوم کام کیا مگر کسی معاوضہ کے بغیر فارغ کر دیا گیا۔انہی دنوں قرآن پاک کے اشاعتی ادارے تاج کمپنی میں ہیڈ کلرک غلام حسین کی وساطت سے مجھے 35روپے ماہوار پر نوکری مل گئی۔‘‘ ’’3جون 1947ء کے تقسیم ہند کے اعلان کے فوراً بعد برصغیر کے متعدد علاقوں میں فسادات شروع ہو گئے۔ مجھے معلوم ہوا کہ بعض ہندو سکھ اپنے اہل خانہ کو لاہور سے بھیجتے وقت گھر کا سامان بھی فروخت کر رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے ایسے لوگوں کا گھریلو سامان خرید کر آگے بیچنے کا پروگرام بنایا۔ ایسے سامان میں گھریلو فرنیچر‘ سائیکلیں‘ سلائی کی مشینیں‘ لکڑی کی الماریاں اور ڈریسنگ ٹیبل وغیرہ ہوتی تھیں۔ مجھے پچاس ساٹھ روپے منافع ہو جایا کرتا تھا۔‘‘ ’’قلعہ گجر سنگھ جہاں میری رہائش تھی وہیں نزدیک چودھری محمد حسین رہتے تھے۔ وہ پریس برانچ میں سپرنٹنڈنٹ تھے لیکن ان کی اصل شناخت علامہ اقبال کے بچوں کے سرپرست کی تھی۔ چودھری صاحب کے دو بیٹے تھے۔ برجیس اور نفیس۔ ان سے میری اچھی صاحب سلامت تھی۔ چودھری صاحب کو کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ پاکستان نیا نیا بنا تھا۔ ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے تو ان کی لائبریریاں کباڑ خانوں میں پہنچ گئیں۔ لاہور کا شاید ہی کوئی کباڑ خانہ ہو جہاں چودھری صاحب اپنے ذوق کی کتابیں تلاش کرنے نہ پہنچے ہوں۔ علامہ اقبال ان پر اعتماد رکھتے تھے لیکن بعض لوگ انہیں انگریز حکومت کا مخبر خیال کرتے تھے۔‘‘ ’’کچھ عرصہ دل محمد روڈ پر واقع گوجرانوالہ لاج میں مقیم رہا۔ اس کے سامنے حکیم محمد حسن قرشی کا مطب تھا۔اسی دل محمد روڈ پر سروس انڈسٹریز نام کی چھوٹی سی شو فیکٹری تھی جس کے تین حصہ داران تھے۔ چودھری نذر محمد ‘ چودھری محمد حسین (احمد مختار اور احمد سعید کے والد) اور چودھری محمد سعید۔ تینوں سائیکلوں پر ہوتے اور تھیلوں میں جوتوں کے نمونے ڈال کر محکمہ پولیس اور جوتوں کی دکانوں پر بطور سیمپل دینے جاتے۔‘‘ ’’فسادات کے دنوں میں ایک روز سٹیشن آیا۔ امرتسر سے مہاجرین کی گاڑیاں آ رہی تھیں۔ ایک ٹرین ایسی بھی آئی کہ لاشوں سے بھری پڑی تھی۔ لاشیں بری طرح کٹی پھٹی تھیں۔ چہرے مسخ کر دیے گئے تھے۔ سب لوگ حواس باختہ ہو گئے یکدم نعرے گونجنے لگے ’’مسلمانوں کا قبرستان… پاکستان‘ پاکستان۔‘‘ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قیام پاکستان کے لئے اتنی قربانیاں دینا پڑیں گی۔‘‘ ’’1949ء میں لا کالج پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔ میرے لا کالج کے بہت سے ساتھی مختلف شعبوں میں ستارے بن کر چمکے ۔ ان میں سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ‘ سابق جسٹس کرم الٰہی چوہان‘ جسٹس غضنفر علی گوندل ‘ جسٹس قربان صادق‘ معروف سیاستدان ملک محمد قاسم‘ ملک اللہ یار‘ جناب ایس ایم ظفر‘ سابق وزیر مہر خداداد لک اور ریاست دیر کے بہرہ ور سعید اخوندزادہ شامل ہیں۔‘‘ ’’چاولوں کے کاروبار کے ساتھ ساتھ نے میانوالی کے دوستوں کے ساتھ مل کر کندیاں میں برف خانہ لگایا۔ لاہور واپس آ کر اگست 1950ء کو وی برادرز نامی فرم سے بطور حصہ دار وابستہ ہو گیا‘‘۔ ’’کوثر نیازی موسیٰ خیل کے ایک پرائمری سکول میں مدرس تھے اور کندیاں کے حلقہ جماعت اسلامی کے اجتماع میں اکثر شریک ہوتے تھے‘ ایک مشاعرے میں حکمرانوں پر طنزیہ شعر کہنے پر ملازمت سے فارغ کر دیے گئے۔ بیکار تھے۔ میرے کہنے پر نصراللہ خاں عزیز صاحب نے خط لکھ کر لاہور بلوا لیا اور’’ سہ روزہ کوثر‘‘ میں معاون مدیر رکھ لیا۔‘‘ ’’1974ء میں جب حیدر آباد ٹربیونل میں حبیب جالب کی 4لاکھ کی ضمانت ہوئی تو کوئی کمیونسٹ ضمانت دینے نہ آیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے مجھے اور جامعہ قبولہ کے رانا ظفر اللہ خان کو ضمانت نامے داخل کرنے کا کہا۔حبیب جالب بعد میں جب کبھی ملتے ،میرے ضمانتی ِ کہہ کر گلے لگاتے‘‘۔ رانا نذرالرحمان لاہور کے ریونیو اور اراضی معاملات کے ماہر تھے۔کئی بڑے لوگوں کی ترقی کے شاہد۔بہت سے لوگ ان کی سرپرستی کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔کتاب میں ایسا بہت سا مواد ہے جو پاکستان کی حالت کو سمجھنے کا پس منظر اجاگر کرتا ہے۔سات سو کے قریب صفحات کی کتاب کا ابھی تیسرا حصہ پڑھ سکا ہوں۔باقی آئندہ کسی وقت سہی۔