اس وقت پاکستان میں جس بات کا سب سے زیادہ چرچا ہے وہ ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہو گا۔2023کے الیکشن کے لیے نگران وزیراعظم کا انتخاب ابھی ہونا ہے روایت تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے لیڈر مل کے نگران وزیراعظم کو نامزد کرتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ بہت کم ہو ا ہے، صرف 2018میں شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن کے لیڈر سید خورشید علی شاہ اس بات پہ متفق ہوئے تھے کہ اس بندے کو نگران وزیراعظم لگایا جائے ورنہ یہاں پہ مختلف طریقہ کار کے ذریعے نگران وزیراعظم اور نامزد کیا گیا ہے۔ پاکستان میں جو پہلے نگران وزیراعظم تھے وہ غلام مصطفی جتوئی تھے ۔غلام مصطفی جتوئی کو صدر غلام اسحاق خان نے 1990میں نگران وزیراعظم نامزد کیا تھا وہ چھ اگست 1990سے لے کر چھ نومبر 1990تک نگران وزیراعظم کے عہدے پر رہے اور ان کی مدت تین مہینے تھی غلام مصطفی جتوئی کا تعلق نیشنل پیپلز پارٹی سے تھا۔ پاکستان کے دوسرے نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری تھے،بلخ شیر مزاری کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا ۔جب 1993میں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو انہیں صدر غلام اسحاق خان نے پاکستان کا نگران وزیراعظم لگایا تھا۔ وہ 18اپریل 1993سے 26مئی 1993تک نگران وزیراعظم رہے جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا توبلخ شیر مزاری بطور نگران وزیراعظم اپنے عہدے سے ہٹا دئیے گئے۔ پاکستان کے تیسرے نگران وزیراعظم معین قریشی تھے۔یہ بھی 1993میں نگران وزیر اعظم بنے تھے جب نواز شریف نے استعفیٰ دے دیا اور صدرغلام اسحاق خان بھی مستعفی ہو گئے تو اس وقت جو اسٹیبلشمنٹ تھی اس نے معین الدین احمد قریشی کونگران وزیر اعظم اپوائنٹ کیا ان کاتعلق کسی پارٹی سے نہیں تھا وہ ورلڈ بینک کے لیے کام کرتے رہے تھے ۔معین الدین قریشی 18جولائی 1993سے لے کر 19اکتوبر 1993تک پاکستان کی نگران وزیراعظم رہے ان کی مدت بطور نگران وزیراعظم تین مہینے اور ایک دن تھی۔ پاکستان کے چوتھے نگران وزیراعظم ملک معراج خالد تھے جب صدر فاروق لغاری نے 1996 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کیا تو ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم لگایا گیا۔وہ پانچ نومبر 1996سے لے کے 17 فروری 1997 تک نگران وزیر اعظم رہے اور ان کی مدت تین مہینے اور 12دن کی تھی ملک معراج خالد اس وقت کسی پارٹی سے وابستہ نہیں تھے پہلے 1970کی دہائی میں وہ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل تھے۔ پاکستان کے پانچویں نگران وزیراعظم میاں محمد سومرو تھے‘ ان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ق سے تھاوہ15نومبر 2007ء سے لے کے 25مارچ 2008تک وہ نگران وزیر اعظم کے عہدے پہ رہے‘ ان کی مدت بطورنگران وزیراعظم چار مہینے اور آٹھ دن کی تھی۔ پاکستان کے چھٹے نگران وزیراعظم ملک میر ہزار خان کھوسو تھے ۔میر ہزار خاں کھوسو کا تعلق کسی پارٹی سے نہیں تھا ان کو الیکشن کمیشن آفپاکستان نے 24مارچ کو اپوائنٹ کیا تھا وہ 24مارچ 2013سے لے کے پانچ جون 2013تک نگران وزیراعظم کے عہدے پہ رہے ان کی مدت دو مہینے اور 11دن کی ہے۔ اس کے بعد جو ساتویں نگران وزیراعظم بنے وہ جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک تھے وہ 2018کے الیکشن کے لیے نگران وزیراعظم تھے۔ وہ 31مئی 2018 سے لے کے 18 اگست 2018تک دو مہینے اور18 دن نگران وزیراعظم رہے۔ ان کا تعلق کسی پارٹی سے نہیں تھا ان کا انتخاب پرائم منسٹر شاہد خان عباسی اور اپوزیشن کے لیڈر سید خورشید شاہ نے کیا تھا اور یہ واحد نگران وزیراعظم تھے جن کو وزیراعظم اور اپوزیشن کے لیڈر نے مل کے چنا تھا ورنہ اس سے پہلے جو وزیراعظم مقرر کئے گئے اس پر اپوزیشن اور حکومت کا اتفاق نہیں ہوتا تھا ۔ اب ایک دفعہ پھر پاکستان ایک نگران وزیراعظم کے انتظار میں ہے اور اس وقت کافی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ کون پاکستان کا نگران وزیراعظم ہوگا کچھ دن پہلے مسلم لیگ نواز کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کا نام لیاگیا تھا لیکن اس پہ کافی لوگوں نے اعتراض کیا کہ سیاسی ادمی کو نہیں ہونا چاہیے وہ خود بھی حکومت کا حصہ ہیں ابھی کچھ دنوں سے یہ بھی افواہیں گردش میں ہیں کہ چودھری نثار کو نگران وزیر اعظم لگایا جائے گا۔ ابھی پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کا اس بات پہ اتفاق نہیں ہو سکا کہ کون وزیراعظم لگایا جائے اب دیکھنا یہ ہے کہآیاوہ کوئی سیاسی شخصیت ہے جو پاکستان 2023کے الیکشن کے لیے نگران وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے گی یاکہ اسٹیبلشمنٹ کسی نووارد چہرے کو لے کے آتی ہے۔ ہم جس طرح ہم معین قریشی کے بارے میں بھی جانتے ہیں کہ ان کو پاکستان کا پاسپورٹ ایئرپورٹ پردیا گیا تھا اس طرح ہو سکتا ہے کوئی بالکل باہر سے بھی بندہ آجائے لیکن اس وقت پاکستان کے سب لوگوں کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ 2023کے الیکشن کے لیے کون شخص ہوگا جو نگران وزیراعظم ہوگا اور ان تین ماہ میں وہ حکومت کی باگ دوڑ سنبھالے گا۔پاکستان اس وقت بڑے ہی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے نگران وزیر اعظم کو نہ صرف الیکشن کروانا ہے بلکہ ہوم ورک چلانے کا بھی کام کرنا ہو گا اور جس طرح کی اس وقت معاشی حالت ہے اس کو سیدھا کرنا بھی اس کے لئے آسان نہیںہو گا۔ جاتے جاتے چند حروف انصاف کی طالب رضوانہ کے لیے جس کو ایک منصف کی بیوی نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔اس وقت ملک میں سب سے ٹاپ ترینڈ جسٹس فار رضوانہ ہے۔ رضوانہ کو کیا انصاف مل پائے گا۔کیا انصاف جس کی آنکھوں پے پٹی بندھی ہوتی ہے رضوانہ کے زخموں کو دیکھ سکے گا کیا انصاف میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اپنے قبیلے کے فرد کی بیوی کو قرار واقع سزا دے سکے۔ یا د رکھو ایک منصف اوپر بھی ہے اور اسکے انصاف میں ناں جھول ہے ناں اندھیر۔ اس سے پہلے اس قوم پر کوئی نیا عذاب اترے رضوانہ کو انصاف ملنا چاہئے۔