میرا گمان کچھ ایسا ہے کہ حکومت نے عمران خان کے آزادی مارچ پر پابندی لگاکے اور اسلام آباد جانے والے رستوں اور شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔پچھلے دو روز سے حکومت کی تابعدار پولیس جس بہیمانہ طریقے سے پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور اس کے حامی صحافیوں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مار رہی ہے اور ان لوگوں کے گھروں کے گیٹوں کو توڑ کے اندر گھس کر اہل خانہ سے پرتشدد کر رہی ہے اس سے یہ بات طے ہو گئی ہے کہ حکومت نے اپنے بچائو کے لئے طاقت پر انحصار کر لیا ہے حکیم الامت نے فرمایا تھا کہ طاقت پر بھروسہ خود طاقت کو تباہ کر دیتا ہے اور اب اس امر میں کوئی شبہ نہیںرہا کہ طاقت کے زعم میں ڈوبے ان اقدامات نے خود تباہی کو دعوت دے دی ہے۔ لانگ مارچ اور دھرنے کی سیاست ہماری قومی سیاست کا لازمی حصہ بن چکی ہے ۔خودعمران خان کی حکومت کے دوران بھی مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو لانگ مارچ کر چکے ہیں اور تب کی حکومت نے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔سیاسی کارکنان ایک لمبا سفر طے کر کے دارالحکومت پہنچے‘تقریریں ہوئیں۔ دھرنا دیا گیا اور پھر سب واپس چلے گئے۔خود نواز شریف کی حکومت میں بھی عمران خان اور مولانا طاہر القادری نے دارالحکومت میں دھرنا دیا لیکن حکومت نے نہایت اعتماد سے انہیں ایسا کرنے دیا اور ایک طویل انتظار کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیا ہو گیا کہ حکومت اس لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اتر آئی ہے۔عمران خان نے کھلے لفظوں میں اعلان کر رکھا ہے کہ یہ آزادی مارچ پرامن ہو گا انہوں نے اپنے حامیوں سے بھی اپیل کی ہے کہ کسی قسم کی توڑ پھوڑ اور لاقانونیت کا راستہ اختیار نہ کیا جائے کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس کا نقصان ہمارا نقصان ہے۔ اب تک عمران خان نے جتنے بھی جلسے کئے ہیں ان میں لاکھوں لوگوں کی شرکت کے باوجود لاقانونیت کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا بلکہ سیالکوٹ میں چرچ کی زمین پر جلسہ کرنے کی عین وقت پر اجازت نہ دے کر اشتعال انگیزی کی کوشش کی گئی پولیس نے تشدد کا روایتی حربہ بھی استعمال کیا لیکن تین گھنٹے کے اندر اندر متبادل جلسہ گاہ کا انتظام کر لیا گیا اور سب کچھ پرامن ماحول میں ہو گیا۔عمران بار بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اپنے طویل سیاسی کیریئر میں انہوں نے کبھی قانون کو نہیں توڑا اور جو بھی کیا قانون کے دائر ے میں رہ کر کیا جلوس نکالنا‘ جلسہ کرنا یا دھرنا دینا جمہوری طریقہ کار ہے تو پھر موجودہ اتحادی حکومت کابینہ سے اس لانگ مارچ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکو مت کو اندیشہ ہے کہ اگر لاکھوں کی تعداد میں عوام دارالحکومت پہنچ گئے تو اسے چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی ،اس لئے حفظ ماتقدم کے طور پر شاہراہوں کو کنٹینروں کے ذریعے بند کر دیا جائے، سڑکوں پر ٹوٹے ہوئے شیشے بچھا دیے جائیں ، جلوسوں کی قیادت کرنے والے پی ٹی آئی لیڈروں کو گرفتار کر لیا جائے ۔پولیس جسے مطلوب افراد کو گرفتار کرنے کا مہذبانہ طریقہ اور سلیقہ بھی نہیں آتا اس نے اسی بے ڈھنگے پن اور پرتشدد رویے کا مظاہرہ کیا جس کی وہ طویل تاریخ رکھتی ہے۔اس پکڑ دھکڑ میں علامہ محمد اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا اور ان کے گھر کا گیٹ توڑ کر پولیس اندر گھس گئی تاکہ حکیم الامت کے پوتے اور پی ٹی آئی کے لیڈر ولید اقبال کو گرفتار کر سکے ۔یہ حرکت اس درجہ شرمناک تھی کہ حکومت کے وزیر خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔یہ معافی کافی نہیں ہے اگر حقیقی شرمندگی ہوتی تو خواجہ آصف کو کم سے کم اپنی وزارت سے ضرور مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی مارچ کو ناکام بنانے کے لئے ان شرمناک ہتھکنڈوں کے استعمال کے بعد حکومت اپناحق حکومت کھو چکی ہے۔آمرانہ طور طریقے کسی بھی ایسی حکومت کے لئے سازگار نہیں ہوتے جو جمہوری اور آئینی طریقے سے برسر اقتدار آنے کا دعویٰ رکھتی ہو۔حالات جو رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اس میں حکومت اپنی مدت پوری کرتی نظر نہیں آ رہی ۔لوگ بھولے نہ ہوں گے کہ 1977ء میں بھٹو رجیم کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کے الزام کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے جلسے جلوس ہونے لگے تھے بھٹو انتظامیہ نے طاقت کے زور پہ اس احتجاج کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کہ مصداق حالات بگڑتے ہی چلے گئے۔یہاں تک کہ لوگ گریبان کھول کر سنگینوں کے سامنے آ جاتے ۔ آج بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں جس طریقے سے عمران خان کی حکومت کو ہٹایا گیا ہے لوگ اس کے خلاف سخت غصے میں ہیں۔سوشل میڈیا سے عمران خان کے جلسوں تک میں لوگوں کے جذبات آسانی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔امید یہی تھی کہ مقتدر قوتیں اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو بھانپ کر اس کے تدارک کی کوئی راہ نکالیں گی۔ جب ملک کا امن و سکون غارت ہو رہا ہو‘ تصادم اور ٹکرائو کی فضا ہموار ہو رہی ہو اور کسی بڑے حادثے اور سانحے کا امکان قوی نظر آ رہا ہو تو یہ لاتعلقی ملک کے حق میں نہیں کہی جا سکتی۔اصل بات یہ ہے کہ غیر روایتی سیاسی فکر سے سبھی مفاد پرست طبقے خوفزدہ ہیں۔ یہ طبقے ملک میں تبدیلی اور گلے سڑے نظام سے کنارہ کشی کے لئے تیار نہیں اور نہ داخلہ و خارجہ پالیسی میں کسی قسم کے ردوبدل کے لئے آمادہ ہیں۔ کیا ایک ایسی حکومت جس کے دامن پر کرپشن اور لوٹ مار کے داغ اور جس سے عوام نالاں ہوں کسی ایسی تحریک کو دبا یا کچل سکتی ہے جو اپنا ایک اخلاقی اور سیاسی وجمہوری جواز رکھتی ہو۔لانگ یا آزادی مارچ پر پابندی لگانا‘ دھڑا دھڑ گرفتاریاں کرنا ملک میں خوف اور عدم تحفظ کی فضا ظاہر کرتا ہے کہ یہ حکومت خوفزدہ اور اندیشوں میں مبتلا ہے۔عمران خان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے اس نے وعدوں پہ بھروسہ کیا اور 20مئی کو ملتان کے جلسے میں لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے رک گیا۔لیکن دو دن کا انتظار بھی کام نہ آیا اور وعدہ کرنے والوں کی مصلحتیں آڑے آئیں تو مجبوراً اسے عوام سے لانگ مارچ کی اپیل کرنی پڑی۔اب بھی وقت دور نہیں۔انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے ملک کو تصادم کی راہ پر جانے سے بچا یا جا سکتا ہے۔