نہ جانے کیا افتاد آن پڑی، کیا جادو چلا،ہم ایک ہجو م سے قوم تک کا سفر طے نہیںکر پائے۔ یہ دائروں میں سفر ،کوہلو کے بیل کی طرح۔منزل تو آغاز سفر میں واضح تھی۔سفر شروع ہوا تو ہر ایک راہرو رہبر نہ بن سکا۔ایک دوسرے کے گریبان ناپتا یہ ہجوم،یوں لگتا ہے یہاں کبھی قانون تھا نہ قانون کی حکمرانی۔اس افتاد میں ایک عام شہری یوں پھنسا ، نَہ پائے رَفتَن، نَہ جائے ماندَن۔دنیا کا ہر معاشرہ رواداری ، بھائی چارے اور عدم انتقام سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔معاشروں کو جوڑ کر رکھنے کے لیے جہاں مقصد زندگی کا ادراک ضروری ہے،وہاں ایک نظریہ حیات معاشروں کو مضبوط تر کرتا ہے۔ہم سب محمد رسول اللہﷺ کے امتی ہیں ؟کبھی کبھی یہ سوال اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہیے۔اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے،شائد کہ ہمیں کبھی جواب مل جائے۔ہم جو ایک بند مٹھی بننے کا عزم لے کر نکلے تھے،بند مٹھی میں ریت کی طرح بکھرتے جا رہے ہیں۔ ہم پون صدی میں ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے۔جب کسی معاشرے میں سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے تو عام شہری کو یقین نہیں ہوتاکہ کل کیا ہونے والا ہے۔ حکومت مہمان لگنے لگتی ہے توقانون نافذ کرنے والے اداروں کا تقدس متاثر ہوتا اور جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اثرختم ہو جائے معاشرے میںبدامنی، قانون شکنی اور فساد در آتا ہے۔ ملک دشمن ہمیشہ حکمت عملی اختیار کرتے ہیں کہ ملک کو اندورنی خلفشار میں مبتلا کردیا جائے۔ اس کے بعد بغیر جنگ دوسرے ملکوں کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔ جب بھی سیاسی عدم استحکام اور بدامنی ہوگی معاشی بدحالی اور بدانتظامی کا دور دورہ ہوگا تو یہ مزید استحصال، ظلم اور عدم تحفظ کو پیدا کرے گا۔ بیرونی سرمایہ کار اس ملک کا رُخ نہیں کریںگے اور مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنا چاہیںگے۔ نتیجتا معاشی انتشار، زوال اور بے روزگاری اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا۔اس معاشرتی توڑ پھوڑ کو چند سیاسی بیانات یا کچھ جماعتوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔تب مل بیٹھ کر اپنے گھر کے اختلاف کی طرح راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ انتقام،ضد ہٹ دھرمی اور اخلاقی گراوٹ معاشرے کو مزید تباہ کرتی ہے۔ اس بگاڑ میں سب سے بنیادی دخل اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا ہوتا ہے۔ اگر اخلاق گر گیا تو معاشرہ بھی گرے گا اور اگر اخلاق اعلیٰ اور بلند ہوگا تو معاشرہ بھی صاف ستھرا، پُرامن اور پُرسکون ہوگا۔ہم نے اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود اپنے اخلاقی سرمایے کو ایک طرف لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور ہرہرشعبے میں مغربی اخلاق و اقدار کے منفی پہلوئوں کو عالم گیریت کے نام پر سینے سے لگا لیا ہے۔ پابندیِ وقت، محنت کرنے کی عادت، جواب دہی، قانون کی بالادستی جیسی عادات کی جگہ آزادی کے نام پر احترام، تقدس اور باہم رواداری کو تارتار کردیا، برابری کے نام پر خواتین کا استحصال اور انھیں ایک معاشی کھلونا بنا دینے کی کوشش کی۔ اسلام کو اپنا مذہب قراردیا اور پھر مذہب کو تمام معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات سے خارج کرنے کو ’’ترقی پسندی ‘‘کا نام دے دیا ۔ہر وہ معاشرہ جو اسلامی تصور صبر، قناعت، مسابقت فی الخیرات، اخوت، قربانی اور تعاون علی البر کی جگہ درآمد کیے ہوئے مغربی تصورات و اقدار کو اختیار کرے گا، اس میں معاشرتی توڑ پھوڑ کا عمل فطری طور پر ہوگا اور قوتِ برداشت کی جگہ فوری فائدے کے حصول کی نفسیات کارفرما ہو گی۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس نہج تک پہنچ چکا ہے جہاں برداشت اور سیاسی رواداری ایک حد کو چھو کر ختم ہو گئی ہے۔جماعتی مفادات ریاستی مفادات پر بازی لے رہے ہیں۔ایک زمانے میں بات چیت اور سیاسی حل کے لیے ایک میز پر بیٹھنا اچھا لگتا تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں گے۔اپنے رائے کی قربانی اور دوسرے کی رائے کا احترام ایک خواب سا لگتا ہے۔ حضورﷺکی ذات پوری دنیا کے لیے کامل نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔ اسلام کے آغاز ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل مکہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے۔ آپ ﷺ کو گالیاں دیں، قتل کے منصوبے بنائے، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر نجاستیں گرائیںلیکن آپﷺ نے اس کے مقابلے میں صبر سے کام لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو کفار نے ہرطرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانا شروع کیا۔ آپ ﷺ کے چچا ابوجہل اورابولہب جانی دشمن بن گئے۔ ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے نکاح میںآپﷺ کی دو صاحبزادیاں حضرت ام کلثومؓ اور حضرت رقیہؓ تھیں۔ عتبہ اور عتیبہ نے دونوں صاحبزادیوں کو اس لیے طلاق دے دی کہ آپﷺ سے ابو لہب کا سیاسی اور نظریاتی اختلاف تھا۔اہل مکہ نے اس اختلاف کی سزا معاشرتی مقاطعے(Social Bycot) کی صورت میں دی۔ بھوک اور پیاس سے بچے بلبلا اٹھتے مگر اہل مکہ کو ان پر رحم نہ آتا۔ ان تمام حالات میں آپ ﷺنے صبر ،تحمل اور برداشت کے ساتھ اپنی منزل کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ جب مکہ کے تمام ظالم و جابر کفار و مشرکین سامنے بے بس اورگردن جھکائے کھڑے تھے۔ وہ سب تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ان کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔اس روز ربّ کائنات نے ان تمام کو پیغمبر رحمتﷺکے قبضے میں دے دیا تھا۔آُ پﷺ چشم زدن میں سب کی گردنیں اڑا کر انتقام لے سکتے تھے ۔ آپ ﷺ نے سب سے پوچھا، ’’تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟‘‘ سب نے جواب میں کہا ’’آپ کریم بھائی کے کریم بیٹے ہیں اورہم آپ کی طرف سے رحم واحسان کی امید رکھتے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ یہ الفاظ ظلم کی تمام تاریخ کوملیا میٹ کر گئے۔ ’’آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘