پاکستان ہمیشہ سے ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر رہتے آ رہے ہیں جو عوام سے جبراً ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ ملک چلانے اور عوام کی حالت ’سدھارنے‘ کے نام پر اربوں ڈالرز کے بیرونی قرض لئے گئے ہیں مگر آج تک ایک روپیہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوا۔ پٹرول مافیا اِس ملک میں اِس قدر طاقتور ہوچکا ہے کہ حکومتی عمائدین پٹرول مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ عالمی منڈی میں دنیا پٹرول تقریباََپچاسی اور 78ڈالر فی بیرل یعنی 159لیٹر میں دنیا کو فروخت کر رہی ہے۔ جبکہ روس 65 ڈالرز فی بیرل فروخت کر رہا ہے۔ پینسٹھ ڈالر فی بیرل کے حساب سے پٹرول کی قیمت تقریاََ چھیاسٹھ روپے فی لیٹر بنتی ہے۔ مگر آئل ریفائنریز، درآمدی اور جنرل سیلز ٹیکس کے بعد یہ قیمت تقریباََ ایک سواکیس روپے فی لیٹر کے قریب بنتی ہے۔مگر ہمارے ہاں ہوش ربا ٹیکس لگائے جاتے ہیں ۔ بیہ درست ہے کہ روس اور یوکرین جنگ کے بعد جہاں دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا وہیں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھی مدو جذر دیکھنے کو ملا۔ جنگ کے بعد اگرچہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نے روس پر عالمی پابندیاں لگانے میں دیر نہیں کی مگرعالمی برادری کے اِس عمل کے باوجود روس کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی۔ اْس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اِس طرح کے جنگی ماحول میں ہمیشہ فائدے میں وہ ممالک رہتے ہیں جو ’تباہی میں تعمیر‘ کا عنصر تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ میں چین اور بھارت دو ایسے ملک ثابت ہوئے جنہوں نے عالمی پابندیوں کے بعد تیل کی درآمد ی ضرورت روس سے پوری کرنا شروع کردی۔ گزشتہ مارچ میں بھارت روس سے تیس فیصد جبکہ رواں ماہ میں بھارت اپنی چالیس سے پچاس فیصد تیل کی ضروریات روس سے پوری کررہا ہے۔ اِس وقت بھارت روس سے چھ ملین ٹن تیل درآمد کرچکا ہے جبکہ چین نے اب تک چار اعشاریہ سات ملین ٹن تیل درآمد کیا ہے جو چین میں تیل کی ضروریات کا دس فیصد بنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوکرین اور روس کی جنگ میں چین اور بھارت نے روس کی تیل کی مد میں نوے فیصد تیل کی برآمدات کا رْخ اپنی طرف موڑ لیا ہے۔ روس نے بھی عالمی منڈی کے مقابلے میں بیس ڈالرز فی بیرل تیل کی قیمت میں کمی کرکے دنیا کے کئی ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔ صورت حال اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک بشمول سعودی عرب روس سے سستا تیل خرید کر آگے مہنگے داموں بیچ کراپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کررہے ہیں۔ بھارت اور چین ایک طرف تو روس پر عالمی پابندیوں کی صورت میں تیل درآمد کرکے روس کی مالی معاونت کررہے ہیں وہیں اپنے شہریوں کو سستا تیل فراہم کرکے عوام میں پذیرائی بھی حاصل کررہے ہیں۔ مگر وطن ِ عزیز کے اہل ِ اقتدار کی کہانی مختلف ہے۔ یہ ہمیشہ عملی اقدامات کی بجائے زبانی کلامی گیڈر بھبکیوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ہمارے حکمران ہمیشہ اِس خبط میں مبتلا رہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست کا محور ہمارا ملک ہے۔ ہمارے بغیر نہ امریکہ سپر پاور رہ سکتا ہے اور نہ چین ہمارے ’تعاون‘ کے بنا سپر پاور بن سکتا ہے۔ اگر دنیا میں کوئی جنگ ہوگی تو ہمارے ’جہاں دیدہ‘ حکمرانوں کی حکمت عملی کی وجہ سے وہ جنگ جیتی جاسکے گی وگرنہ اْس جنگ میں حملہ کرنے والے ملک (امریکہ) کی نِری خواری ہوگی۔ خود یہ خزانے پہ سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں مگر عوام کوگردان رٹنے پہ لگادیتے ہیں۔گزشتہ ایک سال سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے مگر نہ تو سابق حکمرانوں نے اِس پر بات کی اور نہ موجودہ اہل ِ اقتدار ملک میں جاری طوفان کے متعلق گوہر افشانی کررہے ہیں۔ سبھی سیاستدان بلکہ سبھی آئینی اداروں کو کمال چالاکی سیِ ہوسِ اقتدار کے گھن چکر میں الجھا دیا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ سبھی ’جمہوریت‘نامی کسی نظام کو نجات دہندہ سمجھ کر اْسے بچانے کی تگ و دو میں شامل ہیں اور عوام کو یوں لالی پاپ دیا گیا ہے کہ ’جمہوریت‘ بچ گئی تو ملک میں غریب عوام اور عام شہری کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ کیسے ہونگے؟ یہ کوئی نہیں بتارہا۔ حالانکہ سچائی تو یہی ہے کہ جمہوریت یا آمریت سمیت کسی نظام نے تاحال وطن ِ عزیز میں بسنے والوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔بلکہ سب نے ملک کر عوام کو کولھو کا بیل بنا کر رکھ دیا ہے جو ظلم و ستم میں پستے پستے غربت کے مدار میں چکرلگارہا ہے اور اپنی ساری آمدنی ٹیکسوں کی مد میں اہل ِ اقتدار کے اللے تللوں کیلئے مفت فراہم کرنے پہ مجبور ہے۔ صرف اِسی تیل کی ضمن میں دیکھا جائے تو ایک طرف تو نظامِ اقتدار پہ قبضہ جمائے عمائدین کی کمال حکمت ِ عملی ہے کہ عوام سے پیسہ اینٹھتے جاؤ اور اْنہیں جمہوریت کے نام پر بے وقوف بناتے جاؤ، وہیں پٹرول پمپ مافیا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔پٹرول پمپ مافیا نے پچاس روپے، سو روپے، پانچ سو روپے، ہزار روپے، پندرہ سو، دو ہزار سے آگے سبھی ہندسوں پر پٹرو ل کے پیمانوں کو کم مقدار پہ متعین کردیا ہے۔ یعنی جب کوئی صارف کسی فکس (متعین) ہندسہ پر پیٹرول ڈلوائے گا تو یقینی طورپر مقدار سے کم پٹرول موٹر بائیک یا گاڑی کی ٹینکی میں جائے گا۔ٹینک فل کروانے اور فکس ہندسہ کی رقم سے پٹرول ڈلوانے سے یہ فرق بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ وگرنہ دوسرے لفظوں میں ایک طرف حکومتی قیمت سے صارف تنگ ہے جبکہ دوسری جانب پٹرول مافیا نے اْس متعین قیمت میں بھی کم مقدار میں پٹرول فراہم کرنے کا سلسلہ شرو ع کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھْلا تیل کسی صور ت میں فراہم نہیں کیاجا رہا کیونکہ اِس طرح پٹرول مافیا کا گھناؤنا چہرہ سامنے آنے کا خطرہ ہے۔ کئی جگہوں پر صارفین پٹرول ڈلواتے وقت ایک ہزار پچیس روپے، پانچ ہزار دس روپے وغیرہ جیسی قیمتوں میں پیٹرول ڈلوا کر پیٹرول مافیا کو شکست دینے کی کوشش کرتے ضرور نظر آتے ہیں مگر یہ مافیا ہے اِس نے یقینا کوئی اور صورت حال نکال لینی ہے۔ بہرحال ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور اپنے ساتھ ظالمین کو بھی مٹا جاتا ہے۔