جنرل سید عاصم منیرنے پاکستان کی غیور افواج کی کمان سنبھال لی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہوئے تو جنرل سید عاصم منیر پاکستان آرمی کے سترھویں آرمی چیف بن گئے ہیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ دن قبل باجوہ صاحب نے شہداء کی قربانیوں کو سراہنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر پاکستان فوج کی سیاست میں مداخلت سے دوررہنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اِسے اْمید کی کرن قرار دیا جاسکتا ہے۔اپنے خطاب کے دوران باجوہ صاحب نے سانحہ اکہتر کے ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے اسے ’فوجی‘ کی بجائے ’سیاسی ناکامی‘ قرار دیا جو کسی حد تک درست اور کسی حد تک حقیقت کے برعکس ہے۔ 1958سے لے کر سانحہ اکہتر تک براہِ راست فوج اقتدار سنبھالے ہوئے تھی۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو متنازع الیکشن میں ہرایا گیا تھا۔ اْس الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن محترمہ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ تھے جبکہ معاہدہ تاشقند میں جنرل ایوب سے اختلاف کے بعد ذوالفقار علی بھٹو فوجی حکومت سے الگ ہوکر اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنارہے تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان بلاشبہ نااہل اور کم عقل حکمرانوں کی سفلی خواہشات کی وجہ سے رونما ہوا جس کی تلافی آج بھی ممکن نہیں۔ مشرقی پاکستان جوں ہی بنگلہ دیش بنا تو بنگالی فوج نے اقتدار میں مداخلت شروع کردی۔ شیخ مجیب الرحمن کو اہل ِ خانہ سمیت قتل کردیا گیا جبکہ مغربی پاکستان (موجودہ) میں ذوالفقار علی بھٹونے حکومت بنائی تو چند سال بعد اْنہیں ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے بعد پھانسی دے دی گئی اور اقتدار ایک بار پھر فوج نے سنبھال لیا۔ جنرل ضیاء الحق جب بہاولپور سے جی ایچ کیو واپسی پر طیارے کو پیش آنے والے حادثہ میں جاں بحق ہونے کے بعد سیاسی رہنماؤں میں اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی کہ ایک بار پھر فوج جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں اقتدار میں لوٹ آئی۔ مشرف کے جانے کے بعد گزشتہ پندرہ سال سے بظاہر ملک میں سیاسی حکومت قائم ہے۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک ِ انصاف سمیت تینوں سیاسی جماعتوں کو اپنا ایک ایک منتخب سیاسی وزیراعظم قربان کرنا پڑا مگر اقتدار پھر بھی سیاسی حکومت کے پاس ہی رہاہے۔ اپنے آخری خطاب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی سیاسی مداخلت کو ایک غلطی قرار دیا۔ انہوں نے درست کہا کہ ایسا کرنے سے عوام الناس میں فوج کے حوالے سے تنقید بڑھتی ہے۔آ ئینی اداروں پر تنقید تب شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے آئینی کام سے ہٹ کردوسرے اداروں میں مداخلت کرتے ہیں۔ افواج ہر ملک کے عوام کے دلوں کی دھڑکن ہوتی ہیں کیونکہ طاقتور افواج کی بدولت ملک کی سالمیت قائم رہتی ہے۔ ملک قائم ہو تو عوام اور افواج قائم رہتی ہیں۔ اب جبکہ ہر سٹیک ہولڈر اپنی غلطی تسلیم کررہا ہے تو کھلے دل کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ ایک قومی بیانیہ اور ایک قومی پالیسی ترتیب دینی چاہئے۔ ہر ادارے کو اپنے آ ئینی کردار کے مطابق اپنے عزم کا اعادہ کرنا چاہئے۔ زمینی حقائق کی روشنی میں ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی بھی ملک کی افواج ملکی سالمیت جیسے اہم معاملے سے پیچھے ہٹ جائیں خاص طور پر جب وہ یہ محسوس کریں کہ سیاسی حکمران اپنے غلط فیصلوں کی بدولت ملک کو مزید اندھیروں کی طرف لے جارہے ہیں۔ سیاسی قیادت، عدلیہ، بیوروکریسی اور دیگر اہم اداروں کے سربراہان اپنی ذمہ داریوں بارے کھل کر تبادلہ خیال کریں۔اِس وقت ہمیں ایک نئے سماجی معاہدے کی اشد ضرورت ہے۔ پولیٹیکل اکانومی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر ادارے اور عہدے کا طاقت اور ذمہ داریوں کا واضح تعین کرلیا جائے اور عہد لیا جائے کہ وہ ہر صورت میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے گا اور اپنی طاقت سے تجاوز نہیں کرے گا۔اگرہمارے حکمرانوں کو ذرا سی عقل ہوتی ہے تو سانحہ اکہتر رونما نہ ہوتا۔ سانحہ اکہتر میں بلاشبہ پاکستان افواج کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے مستند حوالہ بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ ہے۔اگرچہ اس تناظر میں حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی بہت سارے رازوں سے پردہ ہٹاتی ہے مگر بریگیڈئیر صدیق سالک کی کتاب بہت ہی سہل انداز میں قومی اداروں کی کارکردگی، حکمرانوں کی کارگزاریوں اور آئینی اداروں اور عہدوں کے کردار پر روشنی ڈالتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے بڑے دلگیر انداز میں سبھی ذمہ داران کے مثبت اور منفی کرداروں بارے کھل کر بات کی ہے اور ایک طرح سے ان کے کردار کا تعین کردیا ہے۔ یہ بھی اچھا شگون ہے کہ اْس کتاب میں درج مواد کو افواج، سیاسی قیادت اور دیگر ذمہ داران نے قبول کیا۔ مگر یہ بھی تکلیف دہ امر تھا کہ کچھ ہی سالوں بعد دوبارہ ملک کو اْسی جانب دھکیل دیا گیا۔ کیا وجہ ہے کہ سانحہ اکہتر میں الگ ہونے کے بعد بھی بنگلہ دیش کا ’ٹکا‘ ہمارے روپے سے کہیں آگے ہے؟ بنگلہ دیش کی برآمدات پاکستان سے کہیں آگے ہیں۔ بنگلہ دیش آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور ہم تاحال ایک دوسرے کی کردار کشی، غداری، اور ایک دوسرے میں نااہلی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے میں مصروف ِ عمل ہیں۔ ہمارا ہر حکمران اورآ ئینی اداروں کے سربراہان اپنا اپنا بیانیہ بنارہے ہیں۔ہر بندہ اپنی مرضی کے مطابق پالیسی بنارہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے جب وہ اقتدار سے الگ ہوتا ہے تو نیا حکمران اپنی نئی پالیسی ترتیب دینے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ خدا کے لئے پاکستان کو مزید تجربہ گاہ مت بنائیں۔یہاں پہلے کئی تجربات میں کئی نسلیں تباہ ہوچکی ہیں۔غیروں کی جنگ میں خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کا نذرانہ دیا جاچکا ہے اور پاکستان کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ پرائی جنگ میں پاکستان نے کئی ہزارجانوں اور اربوں ڈالرز کا نقصان کیا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بگڑ چکا ہے۔ ترقی کی رفتار سست پڑچکی ہے۔ معیشت گھٹنوں کے بل ہے اور ہمارے پاسپورٹ کی قدر یوگینڈا، کینیا اور شاید زمبابوے کے پاسپورٹ جیسی ہوچکی ہے۔خدا کے لئے ملک اور اس کے عوام پر رحم کھائیے۔ اگر نئے سپ سالار جنرل سید عاصم منیر اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا ان کانام پاکستان کی تاریخ میں امر ہوجائے گا۔