اقتصادی سروے 2020-21 کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 60 فیصد ہے اور اس شرح میں پچھلے ایک سال کے دوران صرف 0.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ پاکستان جیسا ملک جو ہمہ وقت بیش بہا اندرونی و بیرونی مسائل کا شکار رہتا ہے ، جہاں سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش انہیں عوامی مسائل سے دور رکھتی ہے، ایسے میں یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیئے کہ شرح خواندگی میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا۔ وطن عزیز کی اکثریت جہاں دال،روٹی اور سبزی کے بھاؤ تاؤ سے نکلتی ہے تو بجلی کے بلوں میں جا پھنستی ہے،بجلی کے جھٹکوں سے جان چھٹتی نہیں کہ گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کے بھنور میں جان ہلکان ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کہاں کی تعلیم اور کہاں کی شرحِ خواندگی! یہاں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں موجود تمام تعلیمی ادارے سکول سے لے کر کالج اور کالج سے یونیورسٹیز تک سبھی کیا ایک ایسی پڑھی لکھی افرادی قوت فراہم کر رہے ہیں جواس ترقی یافتہ اور تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی دنیا کا مقابلہ کر سکیں۔ کیا یہ پڑھا لکھا طبقہ اتنا قابل اور قابل اعتماد ہے کہ خود کو بین الاقوامی تعلیمی معیار پہ جانچ سکے ؟ تو یقیناً اسکا جواب نفی میں ہو گا۔ میرا تعلق تعلیم و تدریس کے شعبے سے ہے اور میں خود پاکستان کی ایک نامور یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔ لگ بھگ ایک دہائی کے اس تجربے سے میں نے یہ جانا ہے کہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام محض ڈگریاں چھاپ چھاپ کے دے رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی ،جدید تحقیق اور جدید نظام تعلیم کو اپنانے میں ہم دوسرے ممالک کی بنسبت کوسوں دور ہیں۔ ہم تعلیم کے شعبے میں بھی اسی بھیڑ چال کا شکار ہیں جیسے کہ باقی شعبہ جات میں۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری نوجوان نسل قابل یا ذہین نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ذہانت و قابلیت کے جوہر دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے اور ہر انسان انفرادی طور پر بہت ذہین اور خداداد صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ اب یہ اسکے والدین، ماحول اور اساتذہ کا کام ہے کہ انکی صلاحیتوں کو جانچ کر ابھارا جائے اور انکے مطابق انہیں تعلیم دی جائے اور معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنایا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں مسئلہ ہی گھروں اور سکولوں سے شروع ہوتا ہے۔ ملک کی اکثریت غربت سے ہمہ وقت جنگ لڑ رہی ہے لہٰذا والدین محض خانہ پری کیلیے بچوں کو کسی بھی اسکول میں ڈال دیتے ہیں۔ ہر گلی محلے میں خودرو جھاڑیوں کی طرح اُگے ہوئے بے ترتیب اور بے تحاشہ سکول پھر بچوں کو بھی اسی طرح ایک خودرو جھاڑی سمجھ کر تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ ہر سکول کا اپنا نصاب، اپنا طور طریقہ ،اپنا نظام اور اپنی فیس گویا ایک کاروبار ہے کہ بس دن دگنی رات چوگنی ترقی کرئے۔ رٹا سسٹم اور نقل مارکہ سکولوں سے بچے کالج یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں تو ایک کاپی پیسٹ مشین بن چکے ہوتے ہیں۔ ابتدائی تعلیمی سالوں میں انکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں پہ جو قدغن لگائی جاتی ہے وہ انہیں محض ایک ڈگری کے حصول تک محدود کر دیتی ہے۔ میرا واسطہ ایسے سینکڑوں طالبعلموں سے پڑا ہے جنہیں اچھے سے ایک درخواست تک لکھنی نہیں آتی۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کے حصول کا مقصد صرف اور صرف ایک ڈگری حاصل کرنا ہے۔ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے اور یہ فرق ہمیں واضح طور پہ اس معاشرے میں نظر آتا ہے۔ روزمرّہ زندگی میں ہم سبھی دیکھتے ہیں کہ سڑکوں پہ، دفاتر میں،گھروں میں، دکانوں اور بازاروں میں بظاہر پڑھے لکھے لوگ ذرا سی معمولی باتوں پہ دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ذاتی عناد اور دشمنی اس حد تک بڑھتی ہے کہ بات سالوں تک جا پہنچتی ہے۔ معمولی اختلافات کی بنیاد پر قتل و غارت گری ایک عام سا فعل بن چکا ہے۔ صبر، برداشت، تحمل مزاجی اور درگزر جیسے اوصاف کہیں دکھائی نہیں دیتے کیونکہ تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہیں۔ اعلیٰ ڈگریاں لیے نوکری کی تلاش میں سرگرداں نوجوان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ قابلیت اور میرٹ کی دھجیاں بکھیر کے جب نوکری ملتی ہے تو مقصد حیات صرف پیسے کا حصول ہوتا ہے۔ حلال اور حرام کی تفریق کیے بغیر سبھی اس دوڑ میں صبح شام بھاگ رہے ہیں۔ ماں باپ سے لے کر اساتذہ تک اور معاشرے کے تمام کرتا دھرتا طبقے جب صرف پیسے کو اپنا مقصد بنا لیں تو معاشرہ ایسے ہی تنزلی کا شکار ہوتا ہے جیسا کہ آج ہمارا ملک ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن کو ہر جگہ حق سمجھ کر کیا جاتا ہے تو ایسے میں چاہے جتنی مرضی ڈگریاں حاصل کیں جائیں ، نتیجہ صرف ذاتی مفاد اور نفسا نفسی کی صورت ہی نکلتا ہے۔ سالانہ لاکھوں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلائ، اساتذہ، آئی ٹی اور کمپیوٹر کے شعبوں میں جانے والے طلبائ، سائنس اور میڈیکل کی ڈگریاں لینے والے افراد سبھی جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو پہلا ہدف اس ملک کی ترقی نہیں بلکہ اپنی ذاتی ترقی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی نے اپنے اپنے پیشے کو عبادت نہیں بلکہ کاروبار بنا لیا ہے اور اسی حساب سے عوام کی کھال اتارنے کا بھاؤ تاؤ مقرر ہوتا ہے۔ ہم سب اپنے ارد گرد جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ سکول ہوں یا کالج، یونیورسٹی ہو یا ہسپتال ، عدالت ہو یا کوئی اور کاروبارِ زندگی ، ہر جگہ پیسہ بنانا اور کمانا ہی اصل مقصد ہے۔ اچھی اور معیاری سوچ اور اچھی تربیت و تعلیم جب مقصد ہی نا ہو تو ایک مثالی معاشرہ کیونکر قائم ہو سکتا ہے؟ ہم نے بحثیت قوم اپنی نوجوان نسل کو محض ڈگریوں کی ڈگر پہ ڈال کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب اکثریت یہ سوچنے لگے کہ بس ایک بار ڈگری ہاتھ لگ جائے پھر ہم سب کچھ ٹھیک کر لیں گے تو درحقیقت وہ محض طاقت اور اختیار کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے وطن عزیز میں طاقت اور اختیار ملتے ہی سب کچھ یکدم بدل جاتا ہے اور بات سب سے ہٹ کر صرف خود تک محدود ہو جاتی ہے۔ لہذا ہمیں اس بات پہ سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں بلکہ ایک حساس، ذمہ دار اور ایماندار شہری ہونے کیساتھ ایک باشعور اور باصلاحیت انسان بننا ہے جو اس ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ ملک بنا سکیں اور ہم ڈگریوں کی ڈگر سے ہٹ کر ترقی کی ڈگر پر گامزن ہوں۔