ایسی بہت سی کہانیاں بچپن میں پڑھنے کا موقع ملا جن میں خزانے کی تلاش ہوتی یا کوئی مہربان پری خزانے کا پتہ بتا دیتی۔ایسا خزانہ کبھی ملا تو نہیں لیکن یقین ہے کہ پاکستان کی زمین خزانوں سے بھری ہوئی ہے۔پہلا خزانہ تو یہی ہے کہ یہاں کی زمینیں سال میں کئی بار فصلیں اگاتی ہیں جنہیں بیچ کر دولت کمائی جا سکتی ہے، دوسرا خزانہ معدنیات ہیں ۔ستم یہ کہ پسماندہ ٹیکنالوجی ، لالچی افسر شاہی اور عاقبت نا اندیش سیاسی اشرافیہ معدنیات کو نکالنے کے قابل نہیں۔بھلا ہو مسلح افواج کی قیادت کا جس نے ماضی میں ان خزانوں کی حفاظت کی اور اب ریکوڈک پر از سر نو کام شروع کرنے کے لئے حکومت کو آمادہ کیا۔ ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ ایک صحرائی علاقے میں واقع ہے۔ نوکنڈی سے 70 کلومیٹر شمال مغرب میں ہے،یہ علاقہ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب ہے۔خزانوں سے بھرا یہ علاقہ ٹیتھیان بیلٹ میں واقع ہے جو ترکی اور ایران سے پاکستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ریکوڈک مائن ایک منصوبہ بند مائننگ آپریشن ہے، جو ضلع چاغی کے ریکوڈک قصبے کے قریب واقع ہے۔ Reko Diq دنیا کے سب سے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے ایک شمار ہوتا ہے ۔ایک تخمینہ کے مطابق یہاں 5.9 ارب ٹن ایسک گریڈنگ 0.41% تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں جن کی مقدار 41.5 ملین پاونڈ ہے۔ماہرین کا خیال ہے ریکوڈک سے سونا اور تانبہ وغیرہ نکالنے کا کام اگلے چالیس سال تک جاری رہے گا۔ یہ منصوبہ کئی رکاوٹوں کا شکار رہا ہے ۔ٹیتھیان نے منصوبے کے حوالے سے فزیبلٹی اسٹڈی مکمل کی اور اگست 2010 میں اسے حکومت بلوچستان کو جمع کرایا۔ 15 فروری 2011 کو ٹیتھیان نے بلوچستان کے معدنی قوانین کے مطابق مائننگ لیز کے لیے حکومت بلوچستان کو ایک درخواست جمع کرائی۔ 15 نومبر 2011 کو حکومت بلوچستان کی طرف سے ٹیتھیان کو مطلع کیا گیا کہ حکومت نے کان کنی کی لیز کے لیے اس کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ ٹیتھیان نے اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی ثالثی عدالت سے رجوعکیا۔ ٹیتھیان کمپنی ثالثی کی کارروائی میں جیت گئی۔ آئی سی ایس آئی ڈی ٹربیونل نے پاکستان اور ٹی سی سی کے درمیان تنازعہ کی سماعت کی۔ ٹیتھیان نے اس وقت 8.5 ارب ڈالر کا دعویٰ کیا جب بلوچستان کی مائننگ اتھارٹی نے 2011 میں صوبے میں کئی ملین ڈالر کی مائننگ لیز کے لیے اس کی درخواست مسترد کی۔ ٹیتھیان کی ویب سائٹ پر دستیاب تفصیلات کے مطابق، ریکوڈک مائننگ پراجیکٹ تقریباً 3.3 ارب ڈالر کی لاگت سے عالمی معیار کے تانبے اور سونے کی اوپن پٹ مائن بنانا اور چلانا تھا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کے ساتھ اس کے 1998 کے معاہدے نے اسے کان کنی کی لیز کا حق دیا اور یہ صرف معمول کی حکومتی ضروریات کے ساتھ مشروط ہے۔ درخواست مسترد ہونے کے بعد یہ منصوبہ نومبر 2011 میں رک گیا۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ حکومت نے کان کنی کی لیز کو اس لیے ختم کیاکہ اسے غیر شفاف طریقے سے تشکیل دیا گیا تھا۔ تب تک کمپنی ریکوڈک میں 220 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکی تھی۔ آسٹریلوی کان کنی کمپنی ٹیتھیان نے 2012 میں عالمی بینک کے ثالثی ٹربیونل سے مدد طلب کی اور اس نے 2017 میں پاکستان کے خلاف فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ آف پاکستان کے پہلے صادر فیصلے کو مسترد کر دیا۔ جولائی 2019 میں، ٹریبونل نے آسٹریلوی کمپنی کو کان کنی کی لیز سے انکار کرنے پر پاکستان پر مجموعی طور پر تقریباً 6 ارب ڈالر کا ایوارڈ دیا، جس میں ہرجانے کا ایوارڈ اور سود شامل ہے،یہ رقم پاکستان کی جی ڈی پی کے تقریباً دو فیصد کے برابر ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے معاشی حوالے سے اہم ریکوڈک منصوبے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی ہدایت کی ہے۔منصوبے کے متعلق اجلاس میں بیرک گولڈ کمپنی کے وفد نے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک برسٹوو کی سربراہی میں شرکت کی۔وزیر اعظم نے اس موقع پر ریکوڈک روڈ اینڈ ریل کنیکٹیوٹی پر آئندہ ہفتے تفصیلی بریفنگ طلب کر لی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ریکوڈک منصوبے کی فزیبلٹی دسمبر 2024 تک مکمل کر لی جائے گی۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا بلکہ ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان میں ترقی کا نیا باب کھولے گا جس سے معاشی فوائد کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا ہو ں گے ، مقامی معیشت کو فروغ ملے گا اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں سرمایہ کاری ہوگی۔ کان میں صوبائی شراکت داری کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا جس کا مطلب ہے کہ بلوچستان کو کسی بھی قسم کی مالیاتی سرمایہ کاری کئے بغیر25فیصد منافع کی شرح ، رائلٹی، ڈیوڈنڈ اور دیگر مراعات حاصل ہوں گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ پراجیکٹ اپنی تعمیر کے عروج پہ متوقع طور پر تقریباً 7,500 افراد کو روزگار مہیا کرے گا اور پیداوار کے مرحلے کے آغاز میں 4,000 طویل المدتی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے گا۔ بیرک گولڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ پوری دنیا میں اپنی کان کنی کے منصوبوں میں نہ صرف میزبان ملک کے مقامی افراد کو روزگار مہیا کرنے بلکہ مقامی سپلائرز کو بھی ترجیح دیتی ہے۔پاکستان کو معاشی بحالی کے لئے نئے اور متبادل منصوبوں پر کام کی اشد ضرورت ہے۔ اگر میری توقعات غیر حقیقی نہیں تو ریکوڈک سے بلوچستان کے لوگ فائدہ اٹھائیں گے،ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔یہ منصوبہ قیمتی معدنیات نکالنے کی ٹیکنالوجی لائے گا۔پاکستان کی معاشی حالت میں بہتری کے امکانات روشن ہوں گے اور لوگوں کی محرومیوں پر کسی حد تک مرہم رکھا جا سکے گا۔