نیکیتا خروشیف نے کہا تھا ’’سیاست دان ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں وہ دریا نہ ہونے پر بھی عوام سے پل بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ جہاں دریا نہ ہو وہاں بھی پل بنانے کا وعدہ اور لوگوں کے اعتبار کرنے کی ایرک پیورناگی نے گتھی سلجھائی کہ سیاستدان باڑ کی دوسری طرف ہمیشہ سبز باغ دکھاتے ہیں اس کے لئے دھوکہ دہی کے ساتھ خوبیاں ملاتے ہیں، چالیں چلتے ہیں۔ دلکش خواب دکھاتے ہیں مگر جب عوام پر حقیقت آشکار ہوتی ہے تو سبز گھاس کے بجائے بنجر میدان نظرآتا ہے۔ عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے اس وقت کی اپوزیشن نے کیا کیا جتن نہیں کئے ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والی پارٹیاں اور ہر حکومت میں حصہ وصول کرنے والے مولانا کی سربراہی میں بننے والی پی ڈی ایم اکٹھی ہوئیں، سوشل اور سیکولر ہونے کی داعی جماعت پی پی پی اور مسلم لیگ نے سلیکٹڈ اور نااہل عمران خان سے اقتدار چھیننے کے لئے مہنگائی اور طالبان خان کا واویلا اور مارچ کیے۔ مولانا کو اسلام خطرے میں نظر آیا اور سندھ سے مدرسے کے طلبا کو لے کر یہودی ایجنٹ کا تختہ الٹنے کے لئے اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لئے آن پہنچے۔13جماعتی اتحاد پی ڈی ایم نے عوام کو تحریک انصاف کی حکومت کو سکیورٹی رسک بتایا اور مریم نواز مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے کے بعد ڈالر 90اور پٹرول 70روپے میں بیچنے کے وعدے کرتی رہیں۔ عوام کو یقین دلایا گیاکہ معاشی جادوگر ڈار ہی ڈالر کو اوقات میں رکھ سکتا ہے۔ڈار بھی آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے دعویدار اور تین ماہ میں معیشت کو پٹڑی پر ڈالنے کے سبز باغ دکھاتے رہے مگراقتدار میں آنے کے بعد ڈالر ڈار کے قابو میں تو کیا آنا تھا وہ خود آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکلوانا شروع کیں۔ مریم نواز نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی صورت میں جو ہری گھاس دکھائی تھی جب یہ بنجر میدان نظر آنے لگا تو نہایت’’ معصومیت ‘‘سے یہ انکشاف کر دیا کہ وہ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر ضرور ہیں مگر وہ پٹرول کی قیمت بڑھانے کے حکومتی فیصلہ کی حمایت کرتی ہیں نہ ہی یہ نواز شریف کی حکومت ہے۔ پاکستان کے بنجر میدان میں ہری گھاس تو اس وقت اگے گی جب نواز شریف وزیر اعظم بنیں گے۔ اپنی ہی جماعت اور اپنے حقیقی چچا کی حکومت سے اعلان لاتعلقی کے پیچھے شہباز شریف سے مخاصمت سے زیادہ بر ٹرینڈ رسل کی فلاسفی ہے ۔رسل نے کہا تھا کہ ہماری جمہورتیں آج کے جدید دور میں بھی یہ سوچتی ہیں کہ ایک احمق آدمی ایک ہوشیار آدمی سے زیادہ ایماندار ہوتا ہے سیاست دان اسی تعصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے زیادہ احمق ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں جتنا قدرت نے ان کو بنایا ہوتا ہے۔ مریم نواز نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی بدصورتی کو چھپانے کے لئے عمران خان کے چہرے پر توشہ خانہ کی گھڑی اورسیتا وائٹ کی کالک ملنے کی کوشش کی۔ رانا ثناء اللہ کی اور عطا تارڑ نے دن رات عمران خان کے چہرے کی سیاہی دکھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر پاکستانیوں نے حکومتی میڈیا وار کے بجائے پروین شاکر کے اس شعر کے مصداق عمران کی فریاد پر اعتیار کیا: میرا سر حاضر ہے لیکن منصف دیکھ لے کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون مہنگائی کی وجہ سے بلکتے عوام توشہ خانہ کے کھلونوں سے نہ بہلے تو ماضی کے ادوار میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے فرینڈلی اپوزیشن کے کامیاب فارمولے میں مزید جدت پیدا کر کے مسلم لیگ ن میں سے ہی مسلم لیگ ن کی حزب اختلاف پیدا کر دی اب مسلم لیگ کی حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے عوام کو ڈار کے بعد اور نواز شریف کی صورت میں ہری گھاس دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ایک طرف وزیر اعظم کے برابر پروٹوکول کے مزے تو دوسری طرف حکومت کے کسی بھی ناپسندیدہ اقدامات کو قبول کرنے سے انکار۔ کارکردگی کا بھانڈا تو بین الاقوامی ایجنسی موڈیز نے پاکستان کے قرض لینے کی ریٹنگ سی اے اے ون سے کم کر کے سی اے اے ون تھری کر کے پھوڑ دیا ہے۔ ڈار آئی ایم ایف سے جس معاہدے کا دنوں میں ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔وہ آئی ایم ایف ڈار پر اعتبار کرنے پر تیار ہے نہ ہی دوست ممالک مانگتے ہوئے شرم آنے کے باوجود کسی مجبوری کو تسلیم کرنے پر آمادہ۔ ڈار کے خوف سے غیر ملکی تو کیا ملکی سرمایہ داروں کی’’ڈاریں ‘‘بھی پرواز کر رہی ہیں۔ شبر زیدی ملک کے غیر اعلانیہ ڈیفالٹ کرنے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔ ملک کا درد رکھنے والے دھائی دے رہے ہیں کہ معیشت ملک میںسیاسی استحکام سے جڑی ہے۔ حکومت کو پاکستان کی رتی بھر بھی فکر ہے اور عوام سے برائے نام محبت تو معیشت سے پہلے سیاسی استحکام کی کوشش کرے مگر مسلم لیگ ن عمران خان کے بعد اب عدالتوں سے انتقام لینے پر بضد۔ عدالت نے الیکشن کا حکم تو دیا عمران کو چھوڑ کر معزز ججوں کی کردار کشی پر اتر آئی۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں مریم نواز سرکاری پروٹوکول میں جس طرح ملکی اداروں کے خلاف زہر اگل رہی ہیں ان حالات میں ملکی سلامتی کے ذمہ داران کا طرح اے پولیٹیکل رہنا کسی طور بھی پاکستان کے لئے نیک شگون نہیں۔ مریم نواز کی جانب سے عدالت کی بے توقیری اور سلامتی کے ضامن ادارے کے ’’کرداروں‘‘ کے نام لے لے کر لتے لینے کے بعد بعض حلقے انس معین کی طرح اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں: شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور بول کون رہا ہے اس کے ذکر کی تو کسی کو بھی ’’تاب‘‘ نہیں البتہ کس کا لکھا بول رہا ہے اس کی چگلی کھاتی عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ایک امریکی اہلکار کی پاکستانی حکام کے ساتھ تصویر میڈیا پر وائرل ہو چکی۔ ہے لنکا گھر کے بھیدی چیئمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نور عالم نے یہ کہہ کر ڈھا دی ہے کہ امریکا ہمیں 18 ارب ڈالر کا ریلیف دے یا پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پرعملدرآمد کی اجازت۔