ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کے مسلنے اور روندے جانے کا محاورہ تو سنا تھا لیکن سیاست دانوں کی دھینگا مشتی میں سچائی کا اس بری طرح قتل عام ہو گا‘ یہ تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔آج کل نیوٹرل ہونا یعنی غیر جانبداری ایک گالی بن گئی ہے۔حالانکہ سچائی کو نیو ٹرل یا غیر جانبدار ہوئے بغیر پرکھا ہی نہیں جا سکتا۔کہا جا رہا ہے کہ حق و باطل کی لڑائی میں نیو ٹرل ہونا کیا معنی؟آپ حق کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر یقینا باطل کے ساتھ ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ حق پر کون ہے اور باطل کون؟یہ فیصلہ کیسے ہو گا اور کون کرے گا۔یہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ ایک لمحے کے لئے خود کو حق اور باطل کے دعوئوں اور نعروں سے خود کو الگ کر لیں اور پھر صورت معاملہ پہ غور کر کے اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ بتا تو کس کے ساتھ ہے؟ضمیر کا جھکائو جس طرف ہو گا حق بھی یقینا اسی طرف ہو گاکیونکہ انسان کے اندر ضمیر ہی ایک ایسا بیرومیٹر ہے جو آدمی کو اندر سے صحیح اور غلط‘ حق اور ناحق کا پتہ دیتا ہیلیکن آج کل جو ہاہا کار اور غلغلہ مچاہے میر جعفر اور میر صادق کا ،اس میں یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کون ہے اور میر جعفر و میر صادق کون؟تاوقتیکہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کو شکست نہ ہو جائے۔کرکٹ میں بھی آخری بال اور آخری شارٹ تک میچ جاری رہتا ہے۔شکست و فتح کا نتیجہ میچ کے خاتمے کے بعد ہی نکلتا ہے۔ سیاست میں عوام کا جھکائو بے شک اہمیت رکھتا ہے۔لیکن عوام کا جھکائو ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتا تو ملک دولخت کیوں ہوتا اور آج جو درگت ملک کی بن رہی ہے ‘ یہ نوبت ہی کیوں آتی۔عوام جذبات کے ریلے میں بہہ جاتے ہیں اور ہمارے عوام تو مظلوم حکمران سے ہمدردی کرنے میں مثالی شہرت رکھتے ہیں۔خصوصاً ایسے حکمران سے ہمدردی کرنے میں جسے حکمرانی کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی تخت سے اتار دیا جائے اور جس کا تاج بھرے ملک میں اچھال دیا جائے۔ہمارے دیس میں بھٹو بھی مظلوم اور شہید ہے تو جنرل ضیاء کو بھی یہی مقام حاصل ہے وہ بھی مظلوم شہید ہیں کیونکہ دونوں غیر طبعی موت کا نشانہ بنے۔دونوں میں سے کون حق پر اور کون حق پر نہیں تھا۔اس کا فیصلہ کون کرے اور کیسے ہو۔آپ کہیں گے تاریخ کا فیصلہ ہی اٹل ہوتا ہے۔بے شک ایسا ہی ہے لیکن ابھی تاریخ لکھی ہی کہاں گئی ہے۔تاریخی عمل جاری و ساری ہے اور تاریخی واقعات کا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے۔جب یہ ریکارڈ تیار ہو جائے گا۔واقعات‘حادثات اور سانحات پر سے تعصب‘ جانبداری اور جذباتیت کی دھند چھٹ جائے گی۔تبھی مورخ کا کام شروع ہو گا۔لیکن بعض صورتوں میں یہ بھی تو ہوتا ہے کہ مورخین میں اختلاف ہو جاتا ہے اور یہ اختلاف واقعات کی تعبیر میں ہوتا ہے۔کچھ شخصیات بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے مقام اور کارناموں کے تعین میں مورخین آپس میں متفق نہیں ہوتے۔اصل میں بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایک رخ سے کچھ دکھائی ہیں تو کسی دوسرے رخ اور زاویے سے کچھ اور نظر آتی ہیں۔ تو اتفاق فکر و نظر ہو تو کیسے ہو؟ آج کی سیاست کی ہاہا کار میں جو الجھن ہے وہ یہی ہے کہ ایک حکمران جو اپنے دوران حکومت میں غیر مقبول ہوتا جاتا تھا اور جس کی حکمرانی پہ انگلیاں اٹھنے لگی تھیں۔حکومت سے محروم ہو کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گیا ہے۔کم از کم اس کے جلسوں میں عوام کے ہجوم تو یہی بتاتے ہیں کوئی اسے نہ مانے تو اسے اپنی نظر اور اپنے دماغ دونوں کا علاج کرانا چاہیے۔ان جلسوں میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بھی ایسے حقائق ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان دونوں باتوں کے درست ہونے کے باوجود اس کی کیا ضمانت ہے کہ عوام نے مظلوم سابق حکمران سے جو امیدیں باندھی ہیں وہ سب کی سب پوری ہو جائیں گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر عوام کے پاس آپشن کیا ہو گا؟ہمارے عوام ستر بہتر برسوں سے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔سراب ایک واہمے کا نام ہے۔یہ واہمہ کہ صحرا میں جھلملاتے پانیوں کا ایک چشمہ ہے۔قریب جائو تو وہ ریت کے چمکتے ذرات ہوتے ہیں جس سے پیاس بجھتی نہیں اور بھڑک اٹھتی ہے۔ ہمیں جو شبہات کھائے جا رہے ہیں وہ اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگا دینا ایک بات ہے اور حقیقی معنوں میں ملک میں تبدیلی لانا اور انقلاب برپا کر دینا بالکل دوسری بات۔اس کے لئے ہمہ گیر ہوم ورک‘ تجربہ کار افرادی قوت’ گہری بصیرت‘ قوت عمل‘ منصوبہ بندی اور بروقت صحیح فیصلے درکار ہوتے ہیں کیا جو لوگ تبدیلی و انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں وہ ان پیمانوں پہ پورے اترتے ہیں۔فرد واحد کوئی انقلاب نہیں لاتا نہ لا سکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر تبدیلی و انقلاب سے عوام کو مسحور تو کیا جا سکتا ہے لیکن عملاً نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔ہم نے ان کالموں میں پہلے بھی لکھا تھا کہ خان صاحب کی حکومت تھیوری میں کامیاب اور پریکٹیکل میں ناکام ہے اور اس کی وجہ اس کے سوا کوئی اور نہ تھی کہ نیک نیتی کے باوجود تبدیلی لانے کے لئے خان صاحب نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا اور شاید اب بھی یہی صورت ہے۔جو غلطیاں تیاری اور تجربے کی کمی کی وجہ سے سرزد ہوئیں۔اس کا احتمال مستقبل میں بھی ہے اس لئے ہمارا تو مشورہ یہی ہو گا کہ خان صاحب کے جو ساتھی تبدیلی و انقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں‘انہیں یہی کرنے دیا جائے کیونکہ وہ یہی کر سکتے ہیں۔البتہ مختلف امور ریاست کے ماہرین کی ایک ٹیم بنائی جائے اور اس ٹیم کو یہ ٹاسک دیا جائے کہ اگر حکومت بنتی ہے تو ملک کے مختلف تباہ حال شعبوں اور ارادوں کو کس طرح تبدیلی اور انقلاب سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے اسی طرح انتخابات کے لئے لائق صاحب کردار اور تعلیم یافتہ امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا کام بھی ابھی سے شروع کر دیا جائے۔یہ سارے مشورے اس مفروضے پر دیے جا رہے ہیں کہ اب کے خان صاحب کو دو تہائی اکثریت اسمبلی میں مل جائے گی جبکہ یہ بھی اتنا آسان نہیں ہے جن قوتوں نے انہیں تخت سے محروم کیا ہے وہ اتنی آسانی سے انہیں سریر آرائے سلطنت شاید نہ ہونے دیں۔لیکن عوامی جوش و جذبے کا ریلا جس تیزی سے بہہ رہا ہے اس کی بنا پر امید یہی ہے کہ جو بھی اسی راہ میں آیا وہ بہا لیا جائے گا۔زبان خلق کو نقارۂ خدا ہی سمجھنا چاہیے۔کیونکہ اس کے بغیر خدا کے کام سمجھ میں آتے بھی نہیں ہیں۔ ٭٭٭٭٭