عشق سے آشنا تو ہو اور ہم آشنا کہ یوں چاروں طرف ہو روشنی خود کو ذرا جلا کہ یوں میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں معزز و مکرم قارئین! ہم نے غالب کی زمین میں پھول کھلانے کی جو جسارت کی ہے تو ایک پیغام بھی دیا ہے سنگلاخ زمین کو کاٹ کر راستہ آسانی سے نہیں بنتا۔صرف ایک شعر اور دیکھ لیں پھر ہم وطن کی بات کریں گے۔ سوچا تھا سنگ دل کو ہم موم کریں تو کس طرح آنکھ نے وقعتاً وہاں اشک گرا دیا کہ یوں اصل میں مجھے 14اگست کی مناسبت سے بات کرنا تھی موضوع انتخاب کر کے لکھنا کوئی تخلیقی کام نہیں،نصائح وہی کہ قائل نہ کر سکا کوئی دل کو دلیل سے۔ میں دو گھڑی نہ بیٹھ سکا نکتہ چین کے ساتھ مگر کیا کیا جائے بعض اوقات تو انسان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں یہ بات اپنی جگہ درست کہ بقول قتیل شفائی۔میں آج بھی بھولا نہیں آداب جوانی، میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا۔ اپنا مزاج بھی ایسا ہی ہے مگر کبھی دل کہتا ہے کہ زندگی کا مقصد یکسر بھلا نہ دیا جائے زندگی آزادی کا نام ہے یہ بات اس وقت میری سمجھ میں اچھی طرح آئی جب تک عالی دماغ شخص یعنی ابوالکلام آزاد کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہندو بنیے پر انہوں نے یقین کر لیا اور پھر یہ خوش گمانی برف کی طرح جلد ہی پگھل گئی۔ وہ پارلیمنٹ میں ادیبانہ انداز میں کف افسوس ملتے رہے اور متعصب اور زہریلے ہندو نیچے منہ کر کے مسکراتے رہے وہی کہ بوڑھا بہت دیر بعد سمجھا ہے۔میں آپ کا وقت ضائع کئے بغیر اپنی بات پر آتا ہوں کہ معاملہ اتنا سنجیدہ ہے کہ سانس کی ڈوری ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہے۔حضرت قائد اعظم کی سوچ اور اقبال کی فکر کو دونوں ہاتھوں سے سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ طوفان سے کشتی نکال لائے۔ میں بھی نوجوانوں ہی سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں کہ وہ بانگ درا اور بال جبریل ضرور دیکھیں کہ اقبال کیوںکہتا ہے جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔وہ تو ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے نوجوانوں کے آرزو مند ہے: کبھی اے نوجواں مسلم تدّبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تْو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا میں نوجوانوں پر تنقید نہیں کرنا جانتا کہ یہ روش عام ہے اور بے اثر ہے۔تاہم اپنے دوستوں سے یہ گزارش ضرور کروں گا کہ حکمت و دانشمندی سے اپنے بچوں کو یہ باور ضرور کروایا جائے کہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہے یہاں تک کہ وہ انہیں ملک بدر کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔ان کی نمائندگی اسمبلی میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ملازمتیں نہیں ملتیں فرقہ بندی عام ہے اصل بات یہ کہ تاریخ کی سب سے بڑی قربانی جو لاالہ الااللہ کی بنیاد پر دی گئی ایسا تجربہ دہرایا تو نہیں جا سکتا۔اس جذبے کو مرنے نہیں دینا چاہیے۔ معاملہ یقیناً بہت گمبیر ہے کہ اس عظیم آزادی کو کس نے ثمر بار نہیں ہونے دیا یا اس کے ثمر کو عوام تک کیوں نہیں پہنچنے دیا۔قصور وار تو سب ہیںکہ جس کے نام پر ہم نے آزاد ملک حاصل کیا اس کا نظام ہم نے اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔تفصیل میں کیا جائیںکہ اگر نام کو شریعت کورٹ بنائی بھی تو اس کا سود کے خلاف فیصلہ میاں صاحب سپریم کورٹ میں لے گئے کہ ہم کو اللہ اور رسول ؐ کے ساتھ لڑیںگے منہ سے کہنا ضروری نہیں ہوتا اسلام کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئین بھی بنایا تو وہ بھی موم کی ناک ثابت ہوا اور کبھی ردی کا ایک ٹکڑا۔ ہم اللہ کی اس عظیم نعمت کی قدر نہ کر سکے ہم نے ایسے سانپ پالے جنہوں نے محب وطن لوگوں کو غدار ٹھہرایا۔مقصد کہنے کا یہ کہ اجتماعی شعور کو کام پر لانے یا روبہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ساتھ سچ مچ ہاتھ ہوا کہ خواب دیکھنے والے اور تعبیر بتانے والوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور خواب دکھانے والے آ گئے سعد یہ صفدر کا شعر یاد آ گیا: آئو خواب دکھانے والوں سے کوئی بات کریں آزادی کے نام پہ کب تک دھوکے کھائیں ہم درست کہا گیا ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات بھلا دیے گئے یہاں تو آفاقی پیغام جو الکتاب نے دیا وہ طاق نسیاں میں رکھ دیا گیا۔ظاہر فرمودات میں بھی اپنے ملک کے ملک کے مفادکی بات گئی اور ہر ادارے میں حلف بھی تو یہی ہوتا ہے۔ وہ ایک فارمیلیٹی ہوتی ہے یعنی صرف کارروائی ڈالی جاتی ہے ہم حلف نامہ ایک ڈاکیومنٹ کے طور نتھی کرتے ہیں۔گویا اکثر اسے بھی دھوکے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے پھر قدرت بھی انہیں ضرور ذلت سے دوچار کرتی ہے کیا پہچان ہے ان کی کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا۔بہت اچھی بات کی علامہ جواد نقوی نے کہ جب شیطان کسی پر حملہ آور ہوتا ہے تو اسے بے حیا بناتا دیتا ہے اور پھر چھٹی پر چلا جاتا ہے کہ جسے اس نے بے حیا بنا دیا ہے تو اب یہ برا کام کرے گا کہ اس کو اپنی عزت کی پروا ختم ہو چکی وہ ڈھیٹ اور بے شرم ہو چکا۔دنیا کچھ بھی کہتی رہے کیا فرق پڑتا ہے۔ ابھی میں وزیر اعظم کا بیان دیکھ رہا تھا 30سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا۔چیف کی تعریف کرنے میں حرج ہی کیا ہے ماشاء اللہ بڑے بھائی صرف 50روپے کے اسٹام پر سیدھا لندن چلے گئے اور وزارت عظمیٰ کا سواد بھی لے لیا۔ وہ لوہے کے چنے وغیرہ سب باتیں پرانی ہو گئیں۔ لگتا ہے میں موضوع سے ہٹ گیا کہ یہاں بھی انہیں لوگوں کا تذکرہ آ گیا جو آزادی کے شجر کودیمک کی طرح چاٹ گئے ویسے حقیقی آزادی بھی کوئی چیز ضرور ہے کہ جہاں ہمارے ادارے مضبوط ہو جائیں اور پھر مل کر آئین کے زیر اثر کام کریں جہاں پارلیمنٹ سپریم ہو مگر وہ تو سپریم چائے بھی نہیں آخر میں الماس شبی کا شعر: کونا کونا اس دھرتی کا آئو آج سجائیں آزادی کے ان لمحوں کو مل کر امر بنائیں