تازہ خبر تو یہی ہے کہ ضمنی الیکشن بعض نامعلوم خدشات کے پیشِ نظر ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض وفاداروں نے اس کی کئی وجوہات گنوائی ہیں۔ کوئی کہتا ہے، بانیِ پاکستان کے یومِ وفات کے احترام میں، کسی کا خیال ہے، حیدر آباد دکن پہ قبضے کے صدمے کی وجہ سے، کسی کا قیافہ ہے کہ نائن الیون کی اکیسویں برسی کے سوگ میں لیکن حکیم جی کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ہر چیز کی صرف دو ہی وجوہات ہوتی ہیں: ایک حکومتی وجہ دوسری اصل وجہ۔ اس کی حکومتی وجہ تو ظاہر ہے حالیہ سیلاب بتائے گئے لیکن اصل وجہ وہی ہے ، جس کو پورا ملک جانتا ہے۔ یعنی نو حلقوں سے الیکشن لڑنے اور احتساب کے عمل سے دست بردار نہ ہونے والا عمران خان! جو درجن بھر پارٹیوں کے اعصاب پہ سیلاب سے بھی بڑھ کر سوار ہے۔ اپریل سے پہلے، جس کو لاڈلا لاڈلا اور سلیکٹڈ سلیکٹڈ کہہ کے کچھ لوگوں کی زبانیں سُوکھ چلی تھیں، مہنگائی اورنئے انتخابات کے لیے ریلیاں نکالی جا رہی تھیں، اب سُوکھا ہوا راوی چَین ہی چَین لکھنے میں مگن ہے۔ اس وقت پورے دیس میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا ہوا ہے، جس میں پسے ہوئے طبقے کے زخموں پہ مرہم رکھنا تو اِن مسیحوں کے بس کی بات ہی نہیں، ابھی تک اس میں ہونے والی تباہی کا درست تخمینہ ہی نہیں لگایا جا سکا۔ بیرونی امداد ہے کہ ہمیشہ کی طرح آئے چلی جا رہی ہے۔ سنا ہے جہاں جہاں اسے بٹنا ہے، ہمیشہ کی طرح بڑی دیانت داری سے بٹ رہی ہے۔ چاتر ہوشیار پوری کے یہ تحفظات جائیں بھاڑ میں: ؎ شب زادگاں کی کوٹھیوں بنگلوں کی خیر ہو غربت ہماری ساتھ ہی سیلاب لے گیا ویسے آپس کی بات ہے کہ چند ڈرے ہوئے لوگوں کی وجہ سے اس دیس میں صرف حال والے ضمنی انتخابات ہی تو ملتوی نہیں ہوئے۔ ذرا ماضی کی جانب نظر تو دوڑائیے اور دیکھیے کہ ذہنی طور پر ہرے ہوئے لوگوں کی وجہ سے کیا کیا ملتوی چلا آ رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ ملک خالصتاً اسلام کے نام پہ بنا تھا۔ بانیِ پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اس ملک کاآئین چودہ سو سال پہلے تیار ہو چکا ہے لیکن اس آئین کا عملی نفاذ آج تک نہیں ہو سکا۔ جس کی وجہ سے عدل و انصاف اور سزائیں معاشرے سے غائب ہو چکی ہیں اور جرائم کا تناسب برے دنوں کی طرح روز افزوں ہے۔ قرآن و سُنت کہیں مذکور نہیں، فرقہ بازی، فروعات و بِدعات کا سیمنٹ پختہ سے پختہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ 1867ء میں اُردو ہندی تنازعہ پہ دو قومی نظریے اور تقسیم ملک کی پہلی اینٹ رکھی گئی تھی۔ سرسید جیسے وسیع الظرف انسان نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ مَیں آج تک غلطی پر تھا کہ ہندوستان میں ایک قوم بستی ہے۔ اب پتہ چلا کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں جن کا ایک ساتھ رہنا کسی طور ممکن نہیں، اسی طرح جناح ؒ نے بھی واشگاف الفاظ میں اُردو ہی کو پاکستان کی قومی اور دفتری زبان قرار دیا تھا۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک شاطر وزیرِ اعظم نے عوام کے پُر زور مطالبے پر اسے تہتر کے آئین میں شامل کر دیا لیکن ساتھ پندرہ سال کی پخ لگا دی۔ اس میں چالاکی یہ تھی کہ مَیں تین بار وزیر اعظم بنوں گا جس کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ پندرہ سال ہوگا، اس کے بعد جو آئے گا، اُردو جانے اور وہ جانے۔ یہ بدنیتی تو چھے سال ہی ساتھ دے سکی لیکن بعد میں آنے والے اس سے بھی چاتر نکلے، یہ نیک نامی ان کی قسمت میں بھی نہ تھی۔ 1988ء میں پندرہ سال پورے ہونے پر نوے دن والے جرنیل نے اسے As soon as pssible کی بتی کے پیچھے لگا دیا لیکن یہ As soon as کہیں اور کام کر گیا۔ آٹھ ستمبر 2015ء کو خدا خدا کر کے جسٹس جواد ایس خواجہ جیسا ایک مردِ قلندر ملک کی سب سے بڑی عدلیہ میں انصاف کا علم بردار بنا، جو جانتا تھا کہ عام آدمی تو رہا ایک طرف یہاں نوے فیصد وکیلوں اور ججوں کو بھی انگریزی نہیں آتی، صرف رٹے رٹائے فیصلے انگریزی میں تحریر ہوتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے پہلی فرصت میں پاکستان کے تمام اداروں میں اُردو کے مکمل نفاذ کا اعلان کر دیا۔ اس واقعے کو سات سال سے اوپر ہو چکے ہیں۔ اس دوران تین حکومتیں بدلیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا آسیب اس نظام کے اوپر مسلط ہے جو خیر اور فلاح کی تمام اقدار کا راستہ روکے ہوئے ہے، بقولِ شاعر: کچھ ایسا مسلط ہے مِری جان پہ ظالم جادو وہ کسی اور کا چلنے نہیں دیتا 1971ء میںملک کا ایک اہم بازو الگ ہونے پر سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ اس کی اصل وجوہات ملتوی، مجرموں کی نشان دہی ملتوی، ناصر کاظمی پوچھتے رہ گئے: وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں؟ جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے لیکن کوئی زعیم اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں بلکہ تاریخ کا ایک عجیب المیہ دیکھیے کہ آج ’بھوکے بنگالیوں‘ کے بھاری اکثریت والے ’’غدار‘‘ لیڈر کی بیٹی سے ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کا غیرت مند نواسا جھک جھک کے امداد قبول کر رہا ہے۔ ایک سرائیکی شاعر نے کہا تھا: کوئی ایسا جادو دَس ڈھولا مَیں شرم لکھاں تینوں آ جاوے اس کے علاوہ دوستو! یہاں امیر اور غریب کی بڑھتی ہوئی تفریق نیز وڈیرہ ازم اور جاگیر داری نظام کا خاتمہ مسلسل ملتوی ہے۔ کالا باغ اور اس جیسے سیکڑوں ڈیموں کی تعمیر ملتوی ہے۔ یکساں نصابِ تعلیم کا نفاذ تو ملتوی ہے ہی، معیارِ تعلیم کی بحالی بھی ملتوی ہے۔ ایک سیانے نے سچ کہا تھاکہ ممبرانِ اسمبلی اور بیوروکریٹوں کے بچوں کا اپنے علاقے کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ہونا تو ضروری ہے ہی لیکن جب تک اساتذہ کے اپنے بچے وہاں داخل نہیں ہوتے جہاں سے وہ لاکھوں روپوں کی صورت ماہانہ مشاہرہ وصول کرتے ہیں،یہ نظام معیار کو ترستا ہی رہے گا۔ پھر میرے عزیزو! اس ملک سے ملاوٹ، رشوت، سفارش، اقربا پروری، ماحول کی آلودگی، مہنگائی، غربت، ناانصافی، دھونس، دھاندلی، نچلے طبقے کے احساسِ کمتری، سرکاری حج عمرے، روز بروز مہنگے ہوتے انتخابات، ووٹوں کی خرید و فروخت، جعلی جمہوریت کا خاتمہ نہ جانے کب سے ملتوی ہے؟ اس کے علاوہ کیا کیا ملتوی ہے، آئیے حکیم جی کی زبان سے سنتے ہیں: اِس دیس میں ہوا ہے یارو کیا کیا ملتوی! اقدار ملتوی ، یہاں کردار ملتوی معیار ملتوی ، یہاں سرکار ملتوی چھوٹے بپاریوں کا کاروبار ملتوی اِس دیس میں ہوا ہے یارو کیا کیا ملتوی! تعلیم ملتوی ، یہاں تعظیم ملتوی ایمان ، اتحاد اور تنظیم ملتوی غربا میں امن و عدل کی تقسیم ملتوی