اپنے ہونے کا ہی یقیں آئے وہ جو ملنے کو خود کہیں آئے رونے دھونے کا اہتمام کرو شام آئی ہے وہ نہیں آئے یہ انتظار بھی بہت بری شے ہے، بعض تو انتظار ہی میں بوڑھے ہو جاتے۔ وہ انتظار اور ہے جس پر رسا چغتائی نے کہا تھا ’’ہمیں اس کا جو انتظار رہا۔ عمر بھر موسم بہار رہا‘‘ میں تو اذیت ناک انتظار کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو حکومت کو عمران خاں کا رہا کہ کب وہ لانگ مارچ لے کر اسلام آباد میں آئے اور اب کے جو انتظار ہے وہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا ہے مگر آغاز میں ذرا کرکٹ کی بات ہو جائے کہ وہ بھی ہمارے موضوع سے لگا کھاتی ہے۔ ملتان ٹیسٹ میں’’پاکستانی ہیری پورٹر نے انگلش بیئرر کو گھما کر رکھ دیا یعنی ہمارے گلگلی بائولر ابرار احمد نے اپنے ڈبیو ٹیسٹ ہی میں تاریخ ساز سات وکٹیں لے لیں اور دنیا کو حیران کر دیا۔ ابرار احمد نے صرف انگلش بلے بازوں کو نہیں گھمایا امپائر علیم ڈار کو بھی گھما کر رکھ دیا کہ انہیں اپنے تین فیصلے تبدیل کرنا پڑے۔بس یہی گھمانے والی بات عمران خاں پر منطبق ہوتی ہے کہ قبلہ نے رانا ثناء اللہ سمیت سب کو گھما رکھا ہے، وہی کہ کسی آفت آنے کا خوف سردست ایک تو مجھے عمران خاں کا وہ اوور یاد آ گیا جس میں ایک کلاس کی بال پھینکی گئی ،جسے وشواناتھ نے لیفٹ کیا اور اس کی وکٹ اڑا گئے۔گویا سوئنگ ہی ایسی تھی کہ بس۔تب اس دورے پر گواسکر نے کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کی ٹیموں میں اگر فرق ہے تو وہ عمران خاں کا ہے۔اب تو سیاست میں سب ایک طرف ہیں اور دوسری طرف عمران خاں ہے۔ میں کوئی عمران کے حق میں نہیں لکھ رہا۔حقیقت حال بیان کر رہا ہوں۔ سب کچھ آپ کے سامنے ہی ہے کہ کب سے لانگ مارچ کا شور ہے۔اگرچہ 25مئی کی روشنی میں لگتا تھا کہ لانگ مارچ آسان نہیں کہ رانا ثناء اللہ بھی برابر بے لحاظ شخص ہے۔مریم بی بی نے بھی کہا تھا کہ ’’انقلاب آنا تھا مگر آگے رانا تھا‘‘ لیکن اس کے باوجود عمران خاں ہار ماننے والا تو ہیں ہی نہیں کہ سچ مچ وہ ہار کو بھی ہار نہیں مانتے۔وہ لانگ مارچ لانگ مارچ کی تکرار کرتے ہی رہ گیے‘ یہاں تک کہ یہ لفظوں کی ترکیب مخالفین کے سر سے لگنے لگی۔یہ نفسیاتی کھیل تھا اعصاب کی جنگ سمجھ لیں۔رانا صاحب اسلام آباد میں کنٹینر لگاتے گئے ‘ ربڑ کی گولیاں‘ آنسو گیس اور دوسرے اہتمام کر کر کے تھک گئے اور کیا ہوا کہ : ہمارا عشق ظفر رہ گیا دھرے کا دھرا کرایہ دار اچانک مکان چھوڑ گئے خان صاحب نے پینترا بدلا اور اعلان کر دیا کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے جا رہے ہیں اور کب سے وہ تاریخیں دیتے چلے جا رہے حالانکہ معلوم ان کو بھی ہے یہ آسان نہیں بلکہ ناممکنات کے قریب ہے کہ پرویز الٰہی رکاوٹ ہیں۔ مگر ساتھ ہی پرویز الٰہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی عمران خاں کی امانت ہے اور وہ حکم ملنے پر ایک منٹ نہیں لگائیں گے اور اسمبلیاں توڑ دیں گے۔چودھری اعجاز تک بھی لوگ جانتے ہیں کہ پرویز الٰہی کو حکم کہاں سے آ سکتا ہے۔ویسے بھی یہ کامن سینس کی بات ہے اور چودھری صاحب میں تو سپیشل سینس بھی ہے کامن سینس کے مطابق اگر پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو وہ اس منصب پر دوبارہ شاید کبھی نہ آ سکیں تاہم علم غیب تو اللہ جانتا ہے۔اگر عمران خاں اکثریت لیتے ہیں تو بھی وہ پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ کیوں بنائیں گے جبکہ حکومت کی طرف سے ترغیب دی جا رہی ہے کہ اگر وہ اسمبلی تحلیل نہ کریں تو آنے والے انتخاب کو ایک سال تک کھینچ سکتے ہیں کہ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ رہیں: اک محبت ہے بدگماں ہونا اک حقیقت ہے داستان ہونا بس یہی میں کہنا چاہتا تھا کہ کسی نے کسی دوسرے کو گھما رکھا ہے۔پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی سمجھ میں نہیں آ رہے حالانکہ آ رہے ہیں۔عمران خاں حکومتی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہے حالانکہ سب کچھ واضع ہے۔ عمران خاں نے ابرار احمد کی طرح حکومتی ٹیم کو زچ کر دیا ہے۔اتنا زچ کیا ہے کہ آخر وہ بول پڑے ہیں کہ سن سن کر ان کے کان تھک چکے ہیں اور ذھن مائوف ہو چکے ہیں۔رانا ثناء نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ یار اگر مگر چھوڑو۔ اسمبلیاں توڑیں تاکہ آپ کو لگ پتہ جائے ضمنی الیکشن میں کیا ہو گا۔انہوں نے خان صاحب کی وارننگ وغیرہ کو گیڈر بھبھکیاں کہا ہے۔ کہا ہے کہ آپ سمری گورنر کو بھیجیں ایک دن میں منظور کروا لیں گے۔یہ بھی کہہ دیا کہ پرویز الٰہی اگر ساتھ آنا چاہیں تو ست بسم اللہ۔ پتہ نہیں مجھے یہاں غالب کا یہ شعر کیوں یاد آیا: ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام ایک مرگ ناگہانی اور ہے ویسے کمال کی بات یہ کہ پہلے ہمیشہ سے انہیں اسٹیبلشمنٹ گھماتی آئی ہے۔مگر اس کا تذکرہ اس وقت نہیں ہو گا۔دوسرے لوگ گھما بھی رہے ہیں اور گھوم بھی رہے ہیں لگتا ہے کہ عمران خاں میں کچھ ٹھہرائو پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اس کی وجہ یہ کہ پی ٹی آئی باقاعدہ ایک حقیقت کے روپ میں سامنے آ گئی ہے۔اس کا ثبوت یہ کہ عمران خاں نے عام انتخابات سے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن کرنے کا عندیہ دیا ہے۔وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جلد انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں مگر ان کے عمل اور بیان سے ایسا لگتا نہیں کہ ان کی بات میں کوئی شدت ہے۔ان کے ساتھی زیادہ تر دودھ پینے والے مجنوں ہی ثابت ہوئے ہیں۔قربانی دینے والے ان کے پاس کم ہیں۔ہاں خواتین ونگ میں ان کے پاس فورس زیادہ ہے اور ان میں پڑھی لکھی خواتین کی خاصی تعداد ہے۔مردوں میں گولہ باری جاری ہے۔شہباز شریف کیس کے حوالے سے فیاض چوہان نے اسے مک مکا کہا ہے۔مگر حمزہ شہباز نے ایک مرتبہ پھر سرخرو ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ حکومت کو سانس آنے لگی ہے مگر مہنگائی 30فیصد سے کم نہیں ہوئی اور آگے آئی ایم ایف کے معاہدوں کے مطابق حکومت کو اور ٹاسک ملنے والا ہے۔اگرچہ شبلی فراز کی صدر سے ملاقات اور پیغام رسائی ہو رہی ہے کہ شاید انتخابات کے لئے حالات سازگار بنائے جائیں مگر تعجب پھر بھی اسی بات پر ہے کہ آخر نواز شریف واپس کیوں نہیں آ رہے یعنی ہمیں تو نواز شریف نے گھما رکھا ہے۔ثانیہ شیخ کا ایک خوبصورت شعر: ہائے گلابی چاء وی سڑ گئی چلھے تے تتیا اینیاں دیرا کاہنوں لائیاں نے