آج اپنی طویل وقت میں گزرنے والی مختصر سی زندگی پہ نظر کرتا ہوں تو اس میں ڈر، خوف، بے یقینی اور تناؤ کا تناسب باقی تمام چیزوں کی نسبت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ بچپن میں ہماری اخلاقیات درست کرنے کی غرض سے جنوں بھوتوں، چڑیلوں اور بزرگوں سے ڈرایا جاتا تھا۔ حالانکہ ہم نے تمام گندی گالیاں، پھسپھسے لطیفے، بلا وجہ کا غصہ، بات کو بتنگڑ بنانے کا لَفڑا، خوشی کے ہر موقع پر ناراض ہوکے دوسروں کا فنکشن خراب کرنے کی ادا، بلا تحقیق اپنائی گئی فضول قسم کی غیر اسلامی، غیر انسانی رسمیں،جہالت پہ پرلے درجے کا اعتماد، عادات پہ عبادات کو قربان کر دینے کا جذبہ، حُقہ پیتے ہوئے سگریٹ کو مسلسل برا بھلا کہنے کا ہنر اور ’’ساڈے زمانے بڑے چنگے سی‘‘ کی آڑ میں دیدہ زیب حال اور جدید ٹیکنالوجی سے مستقل آنکھیں بند کیے رکھنے کا فن انھی بزرگوں سے سیکھا تھا۔ ذرا بڑے ہوئے تو خود سر کرداروں سے واسطہ پڑا۔جو اللہ کی بے چاری اور مظلوم مخلوق یعنی بچہ لوگوں کو مسلسل خوف زدہ اور دباؤ میں رکھنے کے لیے بالترتیب مولا اور مولا بخش کا بے دریغ استعمال کرتے تھے۔ دونوں کے نزدیک اپنی طرز کا دین اور اپنے انداز کی تعلیم سکھانے بلکہ رٹانے کے لیے تشدد سب سے آسان راستہ تھا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے انھی کرداروں کے بے لچک رویوں کو دیکھ کے ان پر یہ شعر کسا تھا: واعظو! آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے وہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت تھوڑے اور بڑے ہوئے تو ہمارا’ تراہ کاڈنے‘ کو حالاتِ حاضرہ اور تائی حاجرہ خوف ناک انداز میں منھ کھولے کھڑے تھے۔ ’حالاتِ حاضرہ‘ کا تعارف ہمیں ان الفاظ میں کرایا گیا کہ یہ ہمارے وہ منھ زور مقدر ہیں، جو نہ آج تک کسی سے ٹھیک ہوئے ہیں، نہ ہونے کا امکان ہے، بقول انور مسعود: ’حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے‘ اور تائی سے متعلق تایا جان کی یہ رائے کہ یہ حاتم طائی سے بھی پہلے کی بدشگونی ہے، چنانچہ ہم نے ان دونوں کو، اُن کے حال پہ چھوڑ دیا۔ بلوغت میں قدم رکھا تو سیاست اور سیاست دان نامی ’حضرات الارض‘ سے اس انداز سے تعارف ہوا کہ پورے خاندان میں جو لڑکا ہر حوالے سے ناقابلِ اصلاح ہوتا، یعنی جس کی کوئی بھی کل اور گل سیدھی نہ ہوتی، بڑے بوڑھے اُسے پورے اعتماد سے ’بڑا سیاسی ہے‘ کا تمغہ عطا کر کے اس کے حال اور مستقبل سے بے نیاز ہو جاتے۔ پھرایک معروف شاعرنے بھی دو ٹوک انداز میں سمجھا دیا کہ: مِرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو تو ہمیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ پلٹ کے دیکھتے۔ البتہ دنیا داری میں قدم رکھنے کے بعد ابھی زمانہ سازی سیکھنے کی مشق میں مصروف تھے کہ ہمارے حواس پہ کسی اسٹیبلشمنٹ نامی اَن دیکھی بلا کا ہیبت ناک پٹاخہ چھوڑا گیا۔ ملک میں جو بھی اچھا برا کام ہوتا، بتایا جاتا اسٹیبلشمنٹ بی بی کروا رہی ہے۔ کوئی حکومت ختم ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ، کسی کا اقتدار طوالت اختیار کرتا تو اسٹیبلشمنٹ ، کوئی الیکشن ہار جاتا تو اسٹیبلشمنٹ… ہم جیسے دیہاتی نے اسے کھیتوں کے عین بیچ میں نصب کیا جانے والا وہ بڈاوا سمجھ لیا، جو فصلوں کو پرندوں، چرندوں، درندوں کے اُجاڑے سے باز رکھنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ ہم نے اس ہیبت کی بابت بہت سے لوگوں سے دریافت بھی کیا لیکن ساس اور ثقافت کی طرح کوئی بھی اس کی مناسب تعریف نہ کر سکا۔ کسی نے کہا یہ ملک کے مختلف طرز کے سی سی ٹی وی کیمرا نماسیانوں کا ایک ٹولہ ہوتا ہے، جو کسی بھی سسٹم کو ڈھنگ سے چلنے نہیں دیتا۔ کوئی پکارا یہ سیاست اور جانب داری سے بالا بالا ججوں، جرنیلوں، سینئر ترین بیوروکریٹوں اور دانشوروں پر مشتمل، ریاست کے خیر خواہوں کی ایک جماعت ہوتی ہے، جو مرزا داغ دہلوی کی محبوبہ کی مانند ہمہ وقت چلمن سے لگی رہتی ہے۔ صاف چھپتی بھی نہیں، سامنے آتی بھی نہیں لیکن اس کی نگاہِ ناز کے اشارے کے بغیر ملکی مشینری کے چھتناور درخت کا پتّا بھی نہیں ہلتا۔ کسی نے اس کی شاعرانہ تشریح کی کہ یہ لوگ ریاست کے کان، آنکھیں اور دماغ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس اتھارٹی کی ریاست سے ماں سمان بلکہ وڈّی بے بے والی شفقت سن کے سارا ہوّا ، ہوا ہو گیا۔ پھر یہ سن کے مزید تسلّی ہو گئی کہ اس ڈھنگ کی دھونس دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے جو ہمیشہ ریاست کی وفادار ہوتی ہے۔ نہ صرف سیاست، بلکہ یہ عدلیہ، انتظامیہ، داخلہ، خارجہ کی کج رویوں پر بھی کڑی نظر رکھتی ہے اور چیزوں کو درست سمت میں لانے میں بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ یہ جان کر نہ صرف ہمارے سارے خدشات دور ہو گئے بلکہ اِس مِس سے انجانا سا پیار بھی ہو گیا۔ اگرچہ اس دوران بہت سے معاملات میں متعدد خدشات نے سر بھی اٹھایا لیکن ہم ہمیشہ اس کو مصلحت یا حکمت کا نام دے کے چپکے ہو رہے۔ اب کچھ عرصے سے تو ایسے خدشات و خطرات، حقائق کا سینہ چاک کر کے باہر آنا شروع ہو گئے ہیں کہ اطمینان سے سویا ہوا دل ہڑبڑا کے کچی نیندرے اُٹھ بیٹھتا ہے اور چیخ چیخ کے پوچھتا ہے کہ یہ کیسی وڈی بے بے ہے، جسے عدالتوں میں التوا کا شکارلاکھوں مقدمات نمٹانے کی بجائے، ان سے کرپٹ سیاست دانوں کا وکیلوں کی بھاری فیسوں کے عوض مذاق مذاق کھیلنا دکھائی نہیں دیتا۔ جس کے کانوں پہ پیسوں کی خاطر رات دن چیختے اور لوگوں میں اعصابی بیماریاں بانٹنے والے چینل جوں کی مانند بھی نہیں رینگتے۔ یہ کیسی مادرِ مشفق ہے جسے قدم قدم جھوٹ بولنے، بیماریوں کے بہانے باہر بیٹھ کے سازشی سیاست کرنے، حساب مانگنے والوں پر پتھر برسانے والے، سرِ عام لوگوں کے مردہ ضمیر اور خراٹے دار غیرت کی بولی لگانے، ہر اچھے کام میں روڑے اٹکانے والے نظر نہیں آتے۔ یہ کیسی بھاگ بھری ہے جسے مالیوں، چپڑاسیوں کے اربوں کے اکاؤنٹ، ایان علی کی سیاحتیں، چالیس چالیس لاکھ کی لسیاں، ساٹھ ساٹھ لاکھ کے لہنگے، کروڑوں کی گھڑیاں، مختلف محکموں کے جلتے ریکارڈ، مہنگے ترین پلاٹوں اور سیکڑوں ایکڑ کی الاٹوں، اربوں، کھربوں کے محل مناروں، عزت انگیز شخصیات کو تلذذ آمیز وڈیوز کی سرِ عام دھمکیاں اور الیکشن پہ خرچ کیے جانے والے کروڑوں روپوں کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا؟ یہ کیسی پردھان بی بی ہے، جسے ہر زعیم کے حکومتی دورانیے کو کارکردگی پہ تقسیم کرنے کے لیے ایک عدد کیلکولیٹر دستیاب نہیں! یہ کیسی دانش بیگم ہے جسے کروڑوں اَن پڑھ عوام پہ ’جمہوریت‘ نامی بلا مسلط کرتے چلے جانے کے پیچھے سازش بیگم کا واضح چہرہ سجھائی نہیں دیتا؟ یہ دیدہ وروں کی کیسی بستی ہے، جہاں زمینی حقائق کے مطابق سرکاری و نصابی زبان کا نفاذ، حکومتی و تعلیمی نظام کی اصلاح، دینی و سیاسی اقدار کا تعین اور قانون پہ عمل کرانے کا مثالی لائحۂ عمل ہی مرتب نہیں ہو سکا۔ یقین جانیں یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر اب تو ذہن سے اس اتھارٹی سے وابستہ تقدس کا ہالہ اورشانتی کا حوالہ بھی مدھم پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ اب تو خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں لوگ اس مقدس حوا کو بھی ہوّا سمجھ کے باقاعدہ خوف زدہ ہونا نہ شروع کر دیں۔