ایک معاملہ اچانک سے سندھ میں تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔حیران کن طور پر اس بار پیپلز پارٹی قصور وار نظر نہیں آتی۔ایک سادہ بات تھی۔پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ میں روبوٹک سرجری کی سہولت متعارف کرانے کا منصوبہ ترتیب دیا۔حکومت جانے سے پہلے فنڈز جاری ہو چکے تھے۔نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ر مقبول باقر کا کہنا ہے کہ منصوبہ مکمل کرنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے اور نگران حکومت اسے بدل نہیں سکتی۔ان کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر سعد نیاز لیکن کچھ اور سوچتے ہیں ۔وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی افادیت سے انکار نہیں لیکن پہلے ہسپتالوں میں دیگر ضرورت کی چیزیں پوری کی جائیں۔ان کے استدلال کی تو بہر حال حمایت نہیں کی جا سکتی کہ اس طرح تو ہسپتال حکیموں کے دوا خانے بن کر رہ جائیں گے اور نئے آلات سے استفادہ ناممکن ہو جائے گا۔کہنے والے کچھ اور کہانی بھی بیان کرتے ہیں کہ اربوں روپے کے ٹھیکے سے کچھ نئے لوگ حصہ کے طلبگار ہیں۔ روبوٹک سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے آپ کا سرجن آپ کے جسم میں چھوٹا سا چیرا لگاتا ہے اور بہت چھوٹے آلات اور ہائی ڈیفینیشن تھری ڈائمینشنل کیمرہ داخل کرتا ہے، بعض اوقات جلد کے چیرا لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ پھر قریبی کنسول سے آپ کا سرجن آپریشن کرنے کے لیے ان آلات کو جوڑتا ہے۔روبوٹک سرجری کے کئی فوائد ہیں۔کھلی سرجری کے مقابلے میںروبوٹک سرجری والا مریض مختصر عرصہ ہسپتال میں داخل رہتا ہے۔ درد اور تکلیف کم ہوتی ہے ۔تندرستی تیزی سے بحال ہوتی ہے اور مریض معمول کی سرگرمیوں کی جلد انجام دہی کے قابل ہو جاتا ہے۔اس سے ادویات، ہسپتال، اور مریض کے ذاتی اخراجات میں کمی آتی ہے۔وطن عزیز میں ڈاکٹروں کی ہڑتالوں،طبی عملے کا رویہ اور عمومی معاملات کو مد نظر رکھیں تو روبوٹک سرجن کی ضرورت قائل کرتی ہے ۔چھ سرجری روبوٹس کی خریداری پر کل لاگت 7.838ارب روپے آ رہی ہے۔نگران وزیر صحت سعد نیاز کا کہنا ہے کہ آغا خان ہسپتال، لیاقت نیشنل ہسپتال اور ڈاکٹر ضیاء الدین ہسپتال جیسے بڑے نجی ادارے بھی ناقابل عمل ہونے کی وجہ سے روبوٹ حاصل نہیں کر رہے جب کہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی چھتیں دھنس رہی ہیں اور ہم روبوٹک سرجری کیلئے روبوٹ خرید رہے ہیں۔" ڈاکٹر سعد نیاز پر الزامات لگ رہے ہیں اس لئے ان کا پورا موقف پیش کیا ہے۔ویسے میرا نہیں خیال کہ اس انتظامی فلسفہ کو قبول کیا جا سکتا ہے۔یہ نئی اختراعات سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ روبوٹس کے ذریعے ہر جراحی کے طریقہ کار کی لاگت تقریباً 1,500 ڈالر (یا 450,000 سے 475,000 روپے) ہو سکتی ہے۔اس سے بدن کے حساس مقامات کی سرجری ممکن ہو سکے گی۔وزیر صحت اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ جب پہلے ہی LUH، JPMC یا گمبٹ جیسے ٹیچنگ ہسپتالوں میں مناسب لاگت کے ساتھ ایک ہی سرجری کی جا رہی ہو تو پھر کیوں سرجری کے مہنگے طریقے کو پبلک ہیلتھ سیکٹر پر اضافی بوجھ ڈالنے کے لیے ترجیح دی جاتی ہے۔ تنازع جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی)، گمبٹ ہسپتال اور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز ہسپتال کے لیے چار روبوٹک سسٹمز کی خریداری سے متعلق ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ وزیر صحت کے اعتراض سے مطمئن نہیں ۔انہوں نے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کا دورہ کیا اور وہاں روبوٹک سرجری کی افادیت پر بریفنگ لی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سینئر سرکاری افسران نے وزیر صحت کو اپنا فیصلہ واپس لینے کے لیے کہا تھا کیونکہ یہ ٹینڈر پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے دور میں جاری کیا گیا تھا اور نگران سیٹ اپ کو اسے منسوخ کرنیکا اختیار نہیں۔وزیر صحت اپنی ضد میں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ پر بھی ڈھکی چھپی تنقید کر دی کہ انہوں نے معاملے میں مداخلت کی۔یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ نے یکطرفہ فیصلہ کیا اور SIUT گئے اور ہمیں ساری صورتحال سے بے خبر رکھا۔چار روز قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں محکمہ صحت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس ہوا۔اجلاس میں نگران وزیر قانون عمر سومرو، چیف سیکریٹری ڈاکٹر فخر عالم، سیکریٹری صحت ڈاکٹر منصور، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر امجد سراج، جے پی ایم سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول اور ایس آئی یو ٹی کے پروفیسر انور نقوی سمیت متعدد حکام نے شرکت کی۔نگران وزیر صحت شہر میں موجود ہونے کے باوجود نہ پہنچے۔بتایا جاتا ہے کہ وزیر صحت کی درخواست پر یہ اجلاس تین بار ملتوی کیا گیا لیکن پھر بھی ان کا شریک نہ ہونا تعجب خیز ہے ۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان نے واضح کیا کہ میٹنگ چھوڑنے کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔سرجری روبوٹس کی خریداری کے ٹینڈر پر وزیر اعلیٰ اور وزیر صحت کے درمیان اختلافات کے بارے میں وزیر اعلیٰ کے ترجمان لا علمی کا اظہار کر رہے ہیں۔سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ اپنے مقرر کئے وزیر صحت سے خوش نہیں،اس کے باوجود ڈاکٹر سعد نیاز ابھی تک کابینہ کا حصہ ہیں۔اجلاس میں وزیراعلیٰ نے محکمہ صحت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق، جسٹس مقبول باقر نے صوبے کے ہسپتالوں کے اپنے حالیہ دوروں کا حوالہ دیا اور بتایا کہ زیادہ تر صحت کی سرکاری سہولیات "مکمل گندگی" کا ڈھیر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے سیہون اور سکھر تک سرکاری ہسپتالوں کے دورے کے دوران انہوں نے ان سہولیات کو مکمل طور پر خراب حالت میں پایا۔ مرد اور خواتین مریضوں کو ایمرجنسی وارڈز میں الگ الگ نہیں رکھا گیا تھا۔ حاضری کے رجسٹروں کو چیک کیا گیا تو عملے کے زیادہ تر ارکان غیر حاضر تھے۔نگران وزیر صحت ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے نیک نام مسیحا کو بدنام کر رہے ہیں، وہ اپنے وزیر اعلیٰ کا موقف نہیں مان رہے،وہ عام آدمی کو نئی ٹیکنالوجی کی فراہمی کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔اس دوران سرکاری معاملات تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔معلوم نہیں ڈاکٹر سعد نیاز کس طرح وزیر صحت بنے لیکن سارے محکمے کے بگاڑ کو چھوڑ کر وہ ایک ایسے معاملے پر ضد پکڑے ہوئے ہیں جو طبی سہولیات میں جدت کی علامت ہے۔