سوویت یونین کے انہدام کے بعد بش ڈاکٹرائن کی روشنی میں متعارف کرائے گئے نئے عالمی نظام کے خدوخال پر کافی بحث ہوئی ہے۔ یہ نظام اس اصول پر استوار تھا کہ امریکہ کی سرکردگی میں جمہوریت کو دنیا بھر میں فروغ دیا جائیگا، ترقی پزیر ممالک میں سے آمرانہ طرز حکومت کو ختم کردیا جائیگا اور روس اور چین کو مٹھی میں رکھنے کے لیے انہیں عالمی مالیاتی اور تجارتی نظام کا حصہ بنایا جائیگا۔ مشرق وسطٰی کی ذمہ داری امریکہ نے خود اٹھالی۔ افغانستان پر پہلے ہی فوج کشی کی جاچکی تھی۔ اسکے علاوہ بھی کی ایک صورتحال کا سامنا کرنا تھا۔ یہ ملک تھے جہاں جمہوریت کمزور بنیادوں پر استوار تھی اور اسکا حل اصلاحات، آسان شرائط پر دستیا ب بیرونی قرضوں اور امداد سے کیا جانا تھا تاکہ اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے، معیشت بہتر ہو اور لوگوں کو سہولیات زندگی بہتر طریقے سے مل سکیں۔ نجکاری اور طاقت و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی جیسے اقدامات اصلاحاتی عمل کا لازمی حصہ تھیں۔ تجارتی مراعات کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں سے آسان شرائط پر قرضے مہیا کیے گئے تاکہ اصلاحات کا عمل مکمل ہوسکے۔ یعنی اگر پوری دنیا میں جمہوریت پھیل جائے تو ممالک ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے ایک دوسرے سے تجارت کریں گے۔ بالفرض کسی ریاست کی مرکزی حکومت ختم ہوجائے تو اس صورت میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت کی جاسکتی تھی کہ غیر ملکی افواج وہاں آئیں، آئینی ڈھانچہ بحال کریں اور منتخب نمائندوں کو حکومت حوالے کرکے وہاں سے چلی جائیں۔اس تناظر میں پاکستان کے آزاد دنیا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ پاکستان کو کمزور ممالک کے خانے میں رکھا گیا جہاں معیشت دگرگوں حالت میں تھی اور ادارے اصلاحات کے متقاضی۔ نوے کی دہائی میں ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں اور اصلاحاتی عمل کا فائدہ نہ ہوا تو جنرل مشرف کومیدان میں اتاراگیا۔ دوسال بعد نائن الیون ہوا ، افغانستان پر امریکی قبضہ ہواتو پاکستان کو صف اول کا درجہ مل گیا۔ڈالروں کی بارش شروع ہوگئی۔ بینکاری، تیل و گیس اور ٹیلیکام کے شعبے بحال ہوئے۔ پارلیمان کو فعال کیا گیا ، مقامی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا تاکہ ترقی کے ثمرات تمام علاقوں اور خطوں تک پہنچائے جاسکیں۔ جمعیت العلمائے اسلام (ف) کی سرکردگی میں قائم دینی جماعتوں کا اتحاد ، متحدہ مجلس عمل اور مسلم لیگ (ق) کا اس اصلاحاتی دور میں کلیدی کردار تھا۔ بش جونئیر کے دس سالہ دور کے ساتھ ہی پاکستان کا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔پاکستان میں اصلاحاتی عمل سے اب تک باہر رہنے والی اور نوے کی دہائی والی دشمن سیاسی پارٹیاں ، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن ) لندن میں امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی وساطت سے میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کرتی ہیں، بینظیر بھٹو اور نواز شریف بہن بھائی بن جاتے ہیں، مشرف این آر او دیکر کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے جلاوطن سیاسی قیادت کی واپسی کی راہ ہموار بھی کرتا ہے اور اپنے باحفاظت انخلا کی بھی۔ دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات کا اعلان ہوتا ہے ، راولپنڈی جاتے ہوئے بینظیر بھٹو صاحبہ رحیم یار خان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کرتی ہیں اور یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر نتائج پیپلز پارٹی پہلے اور ن لیگ کو دوسرے نمبر پر نہیں لاتے تو وہ ان انتخابات کو تسلیم نہیں کریں گی۔ اگرچہ بینظیر بھٹو قتل ہوجاتی ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات جیت جاتی ہے۔ پارٹی کی باگ ڈورآصف علی زرداری کے ہاتھ میں آجاتی ہے جو خلاف توقع اپنے لیے صدرپاکستان کا عہدہ منتخب کرتے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں سیاسی و مالیاتی اداروں کی مضبوطی اور سویلین بالادستی کی شرط پر دوہزار نو میں کیری۔لوگر بل کے تحت پانچ سال کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد کا اعلان کرتا ہے لیکن اسے سویلین بالادستی سے مشروط کردیتا ہے۔ بل سے منسلک وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ امریکہ پاکستان کی عوام سے یکجہتی اور سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہ کہ اس بل کا مقصد کسی طور پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کی توہین نہیں ہے۔ یہ بل متفقہ طور سینٹ اور ایوان نمائندگان سے پاس کیا گیا۔ تاہم دو سال کے اندر ہی تعلقات میں دراڑ آنا شروع ہوگئی۔مئی دوہزار گیارہ میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ پر امریکی فوجی آپریشن ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے نہ تو کوئی واضح رد عمل ظاہر کیا گیا اور نہ امریکہ کی طرف سے ملنے والی امداد بند ہوئی ۔ اسی سال نومبر میں ایک پاکستانی چوکی پر نیٹو طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں دو درجن کے لگ بھگ پاکستانی فوجی شہید ہوتے ہیں ، پاکستان احتجاج کرتا ہے اور نیٹو کی سپلائی لائن بند کردیتا ہے۔ امریکہ معذرت کرتا ہے اور پاکستان نیٹو کی سپلائی لائن بحال ہوجاتی ہے۔ لیکن تعلقات میں پہلی والی گرمجوشی برقرار نہیں رہتی۔ اسامہ کی ہلاکت کے تناظر میں میمو گیٹ سامنے آتا ہے جس میں امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر ، حسین حقانی، مائک ملن (امریکی چیف آف جوائنٹ سٹاف) کو پیغام بھجواتے ہیں کہ پیپلز پارٹی حکومت کو فوج سے خطرہ ہے۔ اسی سکینڈل کی بازگشت میں دوہزار چودہ کے انتخابات ہوتے ہیں اور ن لیگ کی حکومت بن جاتی ہے۔ دوہزار گیا رہ کے واقعات سے پاکستان اور امریکہ تعلقات میں آئی سرد مہری ٹرمپ حکومت کے اختتام تک نہ صرف برقرار رہتی ہے بلکہ دو ملکوں کے درمیان دور ی بڑھ جاتی ہے۔اب امریکہ کی خارجہ پالیسی تبدیل ہوجاتی ہے، جمہوریت کادنیا میں پھیلاو اس کا مطمع نظر نہیں رہتا بلکہ چین اور روس کا گھیراو اس کا اولین مقصد بن جاتا ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت پاکستان کی بجائے بھارت امریکہ کے لیے اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ بائیڈن حکومت پاکستان کی مدد سے اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے جاتی ہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت سے بے رخی کا رویہ جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ عمران خان آزاد خارجہ پالیسی کا نعرہ لگاتے چین میں ایشین اولمپک گیمز میں شرکت کرتے ہیں اور روس کے صدر سے اس وقت ملاقات کرتے ہیں جب روسی افواج یوکرین میں داخل ہوچکی ہوتی ہیں۔اس سارے تناظر میں امریکہ سے موصول ہونے والا دھمکی آمیز خط، عمران کو اقتدار سے ہٹانے کے تقاضے ، اپوزیشن کی پھرتیاں اور ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کرنے لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے لیکن اس دفعہ وہ نہیں ہوگا جو پہلے ہوتا چلا آرہا ہے کیونکہ سلالہ حادثے کے بعد پاکستان اور ٹرمپ دور کے بعد امریکہ ، دونوں تبدیل ہوگئے ہیں۔