وراثتی خصوصیات کی حامل اقتدار میں باریاں لینے والی سیاسی پارٹیوں کو پچھلے انتخابات میں شکست دیکر حکومت بنانے والی تحریک انصاف کو اب تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ وہ جنہوں نے انتخابات کے نتائج کو دیکھ ہی دھاندلی کا شور مچایاتھا،نئی حکومت کو ناجائز کہا تھا اور اسمبلیوں کو تڑوانے اور قبل از انتخابات کروانے کیلیے سڑکوں پر تھے، بالآخر حکومتی تبدیلی کے آئینی راستے کی طرف لوٹ آئے ہیں۔میثاق ِ جمہوریت سے بندھے ٹولے کو یقین ہے کہ حکومتی پارٹی کے اندر موجود دراڑ سے روشنی پھوٹے گی اور اسکی دنیا روشن کردے گی ورنہ تو ان کے پاس نہ اتنی طاقت پہلے تھی اور نہ اب ہے کہ پارلیمان کے اندر حکومتی پارٹی کو پچھاڑ دے۔ اقتدار کے اس سارے کھیل میں محلاتی سازشیں، پیسہ اورپاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کی بیرونی سازشوں کا ذکر ہورہا ہے تو پاکستان کا روایتی سیاسی کلچر اپنی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اخلاقیات کو کوڑے دان میں پھینک دیا گیا ہے۔ معیشت پر قابض لوگ سیاست کو اپنی پسندیدہ سمت پر گامزن کرنے میں مصروف ہیں تو بازاری پن کی انتہا کردی ہے۔ اشرافیہ کی موقع پرستی ، بے ایمانی اور دھوکہ دہی کھل کر سامنے آگئی ہے۔بدزبانی اور بدتمیزی جلسوں اور پریس کانفرنسوں سے ہوتی ہوئی میڈیا کی شہ سرخیوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں جھلک رہی ہے۔ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن میں موجود بدگمانیوں نے جہاں پارلیمان میں چار سال آئین سازی کے کام کو ٹھپ رکھا اب یہ بھوک، بیماری اور مہنگائی کے جال میں پھنسے لوگوں کی تفریح کا سامان بنی ہوئی ہے۔ کیا معاملات تصادم کی طرف جارہے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جو اس وقت سماجی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ جھگڑا ہے تو کس بات پر؟ کیا نوے کی دہائی واپس لوٹ آئی ہے؟ ایک دہائی بھر لمبا نیم مارشل لا لگایا گیا تھا تب کہیں جاکر میثاق جمہوریت ہوا۔ لمبی جلاوطنی کاٹنے کے بعد بینظیر بھٹو اور نوازشریف لندن میں ہونے والے معاہدے کے ذریعے بہن بھائی بن گئے تھے۔ اس وقت درمیانی راستہ کیا تھا؟ اگر امریکہ درمیان میں نہ پڑتا تو دوحریف پارٹیوں میں صلح ممکن نہیں تھی۔ اگر پرویز مشرف این آر او نہ دیتا تو شاید پاکستان کو ایک دہائی کا سیاسی استحکام نصیب نہ ہو پاتا ۔ اس وقت درمیانی راستہ نظر نہیں آرہا۔کسی بیرونی طاقت کو صلح جوئی میں دلچسپی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ پاکستان اپنی صلح کل کی پالیسی کا اعلان کرکے واضح کر چکا ہے کہ وہ اب امریکی مفادات کے لیے کسی جنگ کا ایندھن نہیں بنے گا۔ کچھ بھی ہو، چین کے ساتھ اپنی دوستی کو مشکوک نہیں کریگا۔ اب ملک نے سمت بدل ہی لی ہے تو روس کے ساتھ بھی معاملات ایک نہج پر چل پڑے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اپوزیشن جماعتیں کم سمجھدار ہیں اور معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھتیں لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ موقع پرستی ہمارے خون میں شامل ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اندر سے جمہوری نہیں ہیں۔یوںغلطی کی گنجائش موجود ہے۔ ان پر قابض خاندان اپنے مفادات کی خاطر انہیں کسی بھی رخ پر لے جاسکتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ عالمی حالات میں ملک کا جمہوری ہونا تقاضہ تھا۔بیرونی مالی امداد اس سے مشروط تھی۔ یوں سیاسی پارٹیوں کو اپنی من مانی کرنے کی آزادی تھی۔ اب وہ حالات نہیں ہیں۔ پرانی سیاسی پارٹیاں نئے حالات سے سمجھوتہ نہیں کر پارہی ہیں۔ بیرونی امداد رک گئی ہے۔ قرضہ ہی مل پاتا ہے جو اب ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ سیاسی پارٹیاں بلند بانگ نعرے تو مار دیتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہوتا کہ ان پر عمل پیرا کیسے ہونگی۔ بیرونی ادارے قرضہ دے دیتے ہیں اور بیورو کریسی انہیں خرچ کرنے کی حکمت عملی۔ معاملات بگڑتے ہیں تو جمہوریت خطرے میں۔ اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ قرضے بھی واپس کرنا ہوں، حاضر اخراجات ، جس میں دس لاکھ کے لگ بھگ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں شامل ہیں، پورے ہوں اور ترقیاتی کام بھی ہوں لیکن نہ تو ٹیکس کا دائرہ کار بڑھایا جاسکے اور نہ ہی امیر طبقہ پر ٹیکس لگیں۔ جمہوری دور میں محصولات بڑھانے کا ایک ہی راستہ رہا کہ عام لوگوں پر ٹیکس لگا دو۔علاقائی تجارت پر پابندیاں ہو، بجلی افراط کے باوجود مہنگی ہو،امن عامہ کی صورتحال مخدوش ہو اور اداروں کی کارکردگی بھی ناقص تو لوگوں کی قوت خرید پر ضرب لگانا بے وقوفی ہی ہے کہ نہ صرف مقامی سرمایہ کار نئے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے بلکہ سرمایہ باہر منتقل ہوگا۔ موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ کہا ں سے ملا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جو طاقت کے مراکز (لہور، پشور) سے دور ہیں۔ انہیں فیصلہ سازی میں حصہ چاہیے اور وسائل بھی۔سابقہ حکومتی پارٹیوں سے جڑے مفادات نہ تو اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وسائل کی منصفانہ تقسیم کہ ملکی معیشت اور سیاست کسی متوازن راستے پر چلے۔ یوں متحارب دھڑے واضح طور پر تخت یا تختہ کے اصول پر چل رہے ہیں۔ اگر بیرونی ہاتھ کے عنصر کو رد بھی کردیا جائے تو اس صورتحال کے ذمہ دار نسلی اور مذہبی تعصبات کے پیچھے چھپے مافیا بھی ہیں،جو تمام پارٹیوں میں موجود ہیں۔ تحریک انصاف میں موجود ایک طاقتور گروہ خونی رشتوں اور مفادات کے حوالے سے حزب اختلاف میں بھی موجود ہے۔ جب تک تحریک انصاف ان کے اشاروں پر چلتی رہی تو اقتدار میں، خلاف ہو تو باہر۔ میلسی جلسے میں اختیار کیے گئے عمران خان کے لب و لہجے سے تو یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ حقائق سے آشنا ہیں اور کسی بھی صورتحال کے تیار۔ تبھی تو انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ والے دن اپنے حامیوں کو ڈی چوک پر جمع ہونے کا کہا ہے کہ حکومتیں ختم ہوتی ہیں، پارٹیاں اور انکا ایجنڈا نہیں۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ الیکشن اس سارے قضیے کا حل ہے تو ایسی جادو کی چھڑی کہاں سے آئے کہ مخالفین شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرلیں اور عوام کی رائے کو اپنا نصیب سمجھ کر خاموش بیٹھ جائیں؟ مطلب ، اگر معاملات نے نہیں بگڑنا تو درمیانی راستہ نکالنا ہوگا۔ اور درمیانی راستہ یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے۔ اوچھے ہتھکنڈوں سے حکومت گراکر سیاسی بحران پیدا کرنے کی بجائے سندھ اور پنجاب میں ہونے والے مقامی انتخابات پر توجہ مرکوز کی جائے، آئین کی روح کے مطابق اختیارات و وسائل نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں اور اس کے بعد عام انتخابات میں جایا جائے۔