چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے میرے کام کے تھے میری آنکھوں سے ہیں وابستہ مناظر ایسے جو کسی صبح کے تھے اور نہ کسی شام کے تھے عید گزر چکی اور زندگی اب کسی اور ڈگر پر رواں ہو گئی کہ کچھ رمضان کی حد بندیاں تھیں۔ چار پانچ چھٹیاں گزارنا پڑیں جس طرح ہم نے گزارے ہیں وہ ہم جانتے ہیں دن فراغت کے بظاہر بڑے آرام کے تھے۔ سیاسی چالیں چلنے والے دوبارہ بساط پر آ بیٹھے ہیں۔ یہ زندگی اور اس میں تحرک ہی اصل چیز ہے۔ آمدم برسر مطلب پی ٹی آئی نے اپنی انتخابی مہم تقریباً شروع کر دی ہے مگر سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ الیکشن ہوں گے کب۔ آئین کے اعتبار سے یہ انتہائی آسان کام تھا جسے سب نے مل کر بہت مشکل بنا لیا ہے۔ حکومت کے لیے تمام کاموں سے زیادہ مشکل کام انتخابات ہیں۔ اقتدار بڑی مشکل سے ہاتھ آیا ہے۔ یقیناً اس وقت عمران خان کی پوزیشن بہت مستحکم ہے اب کے تو ن لیگ کے لیے الٹ ہو گیا ہے کہ اگر وہ کسی کو ٹکٹ دیتے ہیں تو اخراجات کا بھی بوجھ اٹھائیں گے۔ ایک رسک تو ہے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ وہی قاسم جاوید نے کہا تھا کہ میرے جینے کی ایک صورت ہے۔ میرے سینے سے دل نکل جائے۔ یہاں بھی شرط ایسی ہی ہے کہ کسی طریقے سے نوازشریف واپس آ جائیں۔ گویا دل واپس مل جائے مگر نوازشریف میں وہ جرأت نہیں: اک جرأت رندانہ ایک نعرہ مستانہ اس عشق و محبت میں اس زہر کے پینے میں دیکھئے پردہ سے کیا نکلتا ہے کہ سعودیہ میں تو ان کو پروٹوکول خوب دیا گیا ہے۔ شہزادہ سلمان کے ساتھ بیٹھ کر وہ کونسا راستہ نکالتے ہیں۔ سعودیہ نے مشکل سے نکالنے کے لیے پیسے دیئے مگر اندر کی معیشت تو برباد ہو چکی۔ کوئی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ کمپنیاں واپس جا رہی ہیں۔ یہ بات خان صاحب نے درست کہی ہے کہ وزیراعظم دنیا بھر میں مانگ مانگ کر ہمیں ذلیل کر رہے ہیں لیکن سچی بات یہ کہ اگر یہ ذلت ہے تہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ خیرات لینے تو سب پہنچتے ہیں۔ سب سے خوفناک بات تو عدلیہ اور پارلیمنٹ کی محاذ آرائی ہے ۔ آئے روز معاملات گھمبیر ہو رہے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس وقت تقسیم ہی یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اینٹی پی ٹی آئی۔ کسی زمانے میں یہ تقسیم پیپلزپارٹی اور اینٹی پیپلزپارٹی کی تھی۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی کی کافی کریم پی ٹی آئی میں آئی تھی۔ اب بھی خان صاحب کی خواہش ہے کہ اعتزاز احسن اور لطف کھوسہ پی ٹی آئی میں آ جائیں۔ حیرت ہے کہ خان صاحب کو معلوم نہیں وہ کب سے پی ٹی آئی کی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں۔ ویسے کمال کی بات ہے کہ مشکل پڑی ہے تو کیسے سیاستدان چاہے حکومت میں ہی سہی کیسے یکمشت ہو گئے ہیں۔ عدلیہ کو بھی بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ دیکھیں کون کس کو زیر دام لاتا ہے۔ بہرحال عدلیہ کے لیے آزادی انتہائی ضروری ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنا بھرم قائم رکھنا عدلیہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ سیاسی تقسیم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مولوی صاحبان تک محفوظ نہیں رہے۔ میں خود کو کسی کہتے سنا کہ یہ پی ٹی آئی کا مولوی ہے۔ یہ جنریشن گیپ ہی تو ہے کہ اکثر گھروں میں بزرگ اینٹی پی ٹی آئی ہے اور جوان عمران خان کے ساتھ۔ اور تو اور میرا داماد حیدر میری بیٹی کے ساتھ عید پر آیا ہوا تھا۔ کھانے کی میز پر بات شروع ہوئی تو حیدر نے کہا جو بھی ہے عمران دیانتدار ہے۔ میرا بیٹا عمیر بن سعد بھی اس کی طرف داری کرنے لگا۔ پھر جمہوریت کا تو تقاضا یہی ہے کہ اکثریت کی بات قبول کریں۔ اب یہ تو کوئی بات نہیں کہ حکومت اپنی تمام تر ناکامیاں عمران خان پر ڈال رہی ہے۔ بالکل غط اور پرانا انداز ہے کہ خان صاحب نے بھی حکومت میں آ کر یہی کہا تھا۔ لیکن پی ڈی ایم اور خاص طور پر ن لیگ تو باقاعدہ وعدہ کر کے آئی تھی کہ ان کے لائق ترین لوگ سب درست کردیں گے۔ خاص طور اسحاق ڈار ہر بلا کی دوا سمجھے جا رہے تھے۔ وہ ڈالر کو دو صد روپے لانے کے دعوے دار تھے لیکن جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ باقاعدہ ڈیل کر کے آئے کہ ان پر کیسز ختم کئے جائیں گے اور وہ ہو گئے اور انہوں نے آئی ایم ایف اور لانے والوں کی شرائط بھی پوری کردیں۔ وہ اس کے باوجود نخرے دکھا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زرداری صاحب بھی پینترا بدل گئے ہیں وہ سب کچھ کرکے بھی معصوم بنے بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ حکومت ان کی نہیں وہ تو صرف شریک ہیں۔ سبحان اللہ۔ اس ساری سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ بیٹا آپ کا دنیا بھر کے ممالک سرکاری طور پر گھوم آیا۔ ایسے ملکوں میں بھی گیاجو دنیا کے نقشے پر خالی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ اصل میں ان کا سندھ تو ان کی پاکٹ میں ہے۔ اتنا زیرک آدمی یہ نہ جانے کس بنیاد پرکہہ رہا ہے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تو تب ہی ہوسکتا ہے کہ خان صاحب بھی نااہل ہو جائیں اور پیپلزپارٹی پی ٹی آئی میں ضم ہو جائے۔ کوئی ایسی ہی شاہی چال وہ چلیں تو معلوم نہیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں صفر ہی سمجیھں۔ ایک اہم فیکٹر مولانا فضل الرحمن ہیں کہ وہ عمران خان کے فطری حریف ہیں اور وہ نوازشریف کے لیے تو اثاثے سے کم نہیں کہ ان میں تحریک کی صلاحیت ہے۔ ان کے ساتھ مریم نوازشریف بھی ہیں کہ جنکے پاس عمران خان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں۔ دیکھا جائے تو سراج الحق بھی ریت پر گھی ڈال رہے ہیں۔ مذاکرات ہمیں تو کبھی نظر نہیں آ رہے یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک پارٹی اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرکے انتخابات قبول کرلے۔ چلیے اب آرمی چیف چین کے دورے پر چلے گئے ہیں اس وقت سی پیک معاملہ بھی ذرا کھلتا نظر آ رہا ہے۔ دیکھئے چین معاشی مدد کے ساتھ کیا طاقت فراہم کرتا ہے۔ ایک شعر: فرصت ہمیں ملتی تو کبھی لیں گے سر سے کام ایک در بنانا چاہتے دیوار چین میں