آج کل ایک ڈٹرجنٹ پائوڈر کا اشتہار ٹی وی پر آتا ہے جس میں بڑی دھوم دھام سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کپڑوں پر داغ جی بھر کر لگائیں کہ فلاں پائوڈر فوری داغ مٹا دیتا ہے۔ ڈٹرجنٹ پائوڈر بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات ہر بچے کو یہی ترغیب دیتے ہیں۔ کہیں پر وہ اپنے دادا کو کھانا کھلاتے ہوئے ان کی قمیص داغدار کر دیتے ہیں، کبھی کسی کی مدد کرتے شرٹ بالکل گندی ہوجاتی ہے۔ اشتہار میں جادو دکھانے والا سرف سب داغ نکال دیتا ہے، سفید براق قمیص سامنے ہوتی ہے، پہلے سے بھی زیادہ چمکدار۔ یہ سب مگر ٹی وی سکرینوں پر ہوسکتا ہے، حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ۔ بچوں ، بڑوں کے کپڑوںکے داغ تو چلو کچھ نہ کچھ دھل ہی جاتے ہوں گے۔سیاست میں لگنے والے بدنما سیاہ داغ دھبے کبھی نہیں مٹائے جا سکتے۔ پرانی باتوں کو چلو چھوڑدیتے ہیں، مگر ہماری جدید سیاست میں نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان نے جو سیاسی غلطیاں کیں، جومنفی لیبل ان پر لگے،وہ ان کا برسوں سے تعاقب کر رہے ہیں۔ شائد ہمیشہ ایسا ہوتا رہے گا۔ زرداری صاحب نے نجانے کس ترنگ میں آ کر اپنا مشہور فقرہ کہا کہ’’ وعدے قرآن حدیث نہیں ہوتے کہ ان پر لازمی عمل ہو۔‘‘ زرداری صاحب کی بدعہدی اور کہہ کر مکر جانے کے حوالے سے یہ کلاسیکل مثال کے طور پر ہمیشہ پیش کیا جاتا رہے گا۔ عمران خان کا 2014 ء کا دھرنا بری طرح ناکام ہوا، انہیں کچھ نہیں مل سکا۔ بڑی مشکل سے وہ اس دھرنے سے باہر نکل پائے۔ خان صاحب سیاست میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ جو اسٹیبلشمنٹ تب ان کی طرف دار تھی ، اب وہ سامنے کھڑی ہے۔ خان صاحب پر دھرنا سیاست کا الزام مگر ہمیشہ لگتا رہے گا۔ میاں نواز شریف کے دامن پر ایسے کئی سیاہ داغ موجود ہیں۔ پاکستانی سیاسی کلچر کو کرپٹ کرنے کا اعزاز آنجناب کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے میڈیا میں لفافہ کا رجحان ڈالا، سیاسی کارکنوں کو کرپٹ اور موقعہ پرست بنایا، بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ہارس ٹریڈنگ کی اورچھانگا مانگا آباد کیا۔ہر ادارے کے ساتھ لڑائی بھی ان کا وتیرہ رہی۔ ان سب سے زیادہ برا، بدنما اور کبھی نہ مٹنے والا دھبہ ان پر سپریم کورٹ پر حملے کا ہے۔ چھبیس سال گزر گئے، اس جرم کی صلیب آج تک مسل لیگ ن کے سینے میں گڑی ہے، میاں نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف اور دیگر مسلم لیگی رہنما اس کے ذمے دار ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک کمپین دیکھنے کو ملی جس میں مختلف حیلے بہانوں سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ مسلم لیگی کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ نہیں کیا تھا اور یہ تو بس چند پرجوش کارکنوں کا شور شرابا تھا وغیرہ وغیرہ۔اگلے روز دو مختلف ٹی وی پروگراموں میں ہمارے دو سینئر صحافیوں نے یہ بات کی۔ ایک شو میں تو ایاز امیر موجود تھے، انہوں نے سختی سے اس کی تردید کی اور وضاحت کی کہ مسلم لیگ ن کے کارکن باقاعدہ پلاننگ کر کے سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں ، ایک تھیوری یہ بھی چلائی گئی کہ دراصل چیف جسٹس نے تیرویں آئینی ترمیم ختم کر دی تھی، جس پر وزیراعظم نے تنقید کی تو اس پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے توہین عدالت لگائی تھی وغیرہ وغیرہ۔ اتفاق سے یہ سب باتیںسو فی صد غلط ہیں۔حملہ تو قطعی اور حتمی بات ہے۔ امر واقعہ ہے کہ مسلم لیگی کارکن باقاعدہ پلاننگ کر کے اٹھائیس نومبر کو سپریم کورٹ بلڈنگ پر حملہ آور ہوئے، گیٹ توڑ ڈالا اور سینکڑوں مشتعل کارکنوں کا ہجوم کورٹ نمبر ون کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کیس کی سماعت کر رہے تھے۔ ان حملہ آوروں کو دیکھ کر ایک صحافی تیزی سے بھاگ اور اس نے کمرہ میں داخل ہوتے ہی چلا کر بتا یا کہ چیف جسٹس کو مارنے اور محبوس کرنے لیگی کارکن آ رہے ہیں۔ اس پر تیزی سے چیف جسٹس اور دو ساتھی جج مسٹر جسٹس بشیر جہانگیری اور جسٹس چودھری آصف اپنی سیٹوں سے اٹھے اور کورٹ کے بغل میں واقع ریٹائرنگ روم چلے گئے۔ دروازہ کی کنڈی لگا دی گئی اور پھر پچھلے دروازے سے انہیں پولیس نے بمشکل نکالا۔اس حملے کا اصل مقصدعدالت کی کارروائی رکوانا تھا۔ ایسا ہی ہوا۔ عدالت صرف صرف پنتالیس منٹ ہی کام کر سکی۔ چونکہ جمعہ کا دن تھا، اس لئے مزید کارروائی پیر یکم دسمبر کے لئے ملتوی ہو گئی، حکومت کو وقت چاہیے تھا، وہ انہیں مل گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اخباری اطلاعات اور نجی محفلوں میں مسلم لیگی رہنمائوں کے بیان کردہ حقائق کے مطابق یہ مسلم لیگی کارکن لاہور سے بسوں میں بھر اسلام آباد لائے گئے ۔لاہور میں تب ن لیگ کے گڑھ والے علاقے سمن آباد، اچھرہ وغیرہ سمجھے جاتے تھے، غالباً یہاں سے لوگ لائے گئے،کیونکہ ان حلقوں کے ارکان اسمبلی اختر رسول ایم پی اے، میاں منیر ایم این اے اور ایک دوسرے حلقے سے طارق عزیز ایم این اے (نیلام گھر فیم)بھی ساتھ تھے۔بعد میں سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس نے اس کیس کی تحقیقات کرائی اور ان تینوں ارکان اسمبلی کو تاحیات نااہل کر دیا،البتہ شہباز شریف بچ گئے۔ کہا جاتا ہے اور موقعہ پر موجود صحافی تصدیق کیا کرتے تھے کہ جناب شہباز شریف بھی اٹھائیس نومبر1997ء کی اس صبح سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر موجود تھے۔ وہ میگا فون ہاتھ میں پکڑ کر نعرے لگوا رہے تھے۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ یہاں سے واپس پنجاب ہائوس جانا ہے جہاں دوپہر کا کھانا ہوگا ، جس میں سپیشل قیمہ والے نام بھی ہوں گے۔ قیمہ والے نان کی پھبتی ن لیگیوں پر اکثر لگائی جاتی ہے، اس کا پس منظر بھی شائد یہی واقعہ تھا۔ طارق عزیز بھلے آدمی تھے، اداکار ، کمپیئر، صاحب مطالعہ ، کالم بھی لکھتے رہے،شاعری بھی کی، کتابیں بھی شائع ہوئیں، افسوس کہ سیاست کے گند میں وہ بھی آلودہ ہوئے۔ وہ ہمارے فورم سی این اے (کونسل آف نیشنل افیئرز )میں آتے رہتے تھے، ایک بار انہوں نے تفصیل بھی سنائی کہ کیسے یہ سب لوگ لاہور سے گئے ، پہلے پنجاب ہائوس جانا ہوا، وہاں ناشتہ کیا اور پھر انہیں سپریم کورٹ پر حملے کا ٹاسک ملا۔ مقصد یہی تھا کہ اتنا شورشرابا اور ہنگامہ ہوا کہ عدالتی کارروائی ممکن نہ ہوسکے ، عدالت اٹھائیس نومبر کو فیصلہ نہ کر سکے اور اسے کارروائی ملتوی کرنا پڑے، ایسا ہی ہوا۔ کیس دودسمبر تک گیا اور ان دنوں میں وہ سب مینجمنٹ ہوگئی جس کے بل بوتے پر دو دسمبر کو دو سپریم کورٹ بیک وقت ایک دوسرے کے خلاف بیٹھیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق باقی سب تاریخ ہے۔ یہ کہنا بھی غلط کہ تیرویں آئینی ترمیم ختم ہونے پر حکومت نے احتجاج کیا تو چیف جسٹس نے اس پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی ۔ ایسا نہیں ہے۔ تیرویں ترمیم تو چیف جسٹس نے دودسمبر کو معطل کی، وہ ان کاسپریم کورٹ میں آخری دن تھا۔ توہین عدالت کی کارروئی تو ستمبر سے جاری تھی۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس میں تصادم کی دو تین وجوہات تھیں۔ میاں نواز شریف نے فیصل آباد میں ایک بیس گریڈ کے افسر کو معطل کر کے موقعہ پر ہتھکڑیاں لگا دیں۔اس کے ساتھ نہایت زیادتی ہوئی ۔ اس کا کیس سپریم کورٹ میں پہنچا تو چیف جسٹس نے اسے بحال کر دیا اور بغیر کسی فرد جرم ، بغیر مقدمہ درج کئے ہتھکڑیاں لگانے پر تنبیہہ کی۔ میاں نواز شریف کو یہ ناگوار گزرا کیونکہ وہ خو د کو ہیوی مینڈیٹ یافتہ وزیراعظم سمجھتے تھے۔ دوسرا بڑا واقعہ تیر ہ اگست 97کو اسمبلی سے اینٹی ٹیررازم بل منظور کرانا تھا، اس میں پولیس کو بے پناہ اختیارات دے دئیے گئے، وہ ملزم کو موقعہ پر شوٹ بھی کر سکتے تھے اور پاکستانی تاریخ میں پہلی بار پولیس کی تحویل میں لئے گئے اعترافی بیان کو بطور شہادت استعمال کیا جا سکتا تھا،وزیراعظم نواز شریف نے اس بل میں سمری کورٹس بنوائیں جو ایک ہفتے میں کیس کا فیصلہ کریں۔ اس سب میں بہت کچھ غلط اور قانون کے خلاف تھا، خاص کر پولیس کے ظلم وستم کی روشنی میں ان کی تحویل میں لئے گئے اعترافی بیان پر کون اعتماد کر سکتا تھا؟ جب یہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو چیف جسٹس نے اس کی بعض شقوں کو معطل کر دیا۔ اس پر حکومت اور وزیراعظم چراغ پا ہوئے۔ حالانکہ بعد میں یہ ان کے فائدے میں گیا، ورنہ اگر سمری کورٹس ہوتیں تو جنرل مشرف نے نواز شریف کیس ان میں چلا کر ایک ہفتے میں سزائے موت دلا دینی تھی۔ تیسرا بڑا تنازع سپریم کورٹ میں پانچ جج نہ دینا تھا۔ سپریم کورٹ میں سترہ جج ہوتے ہیں، تب پانچ سیٹیں خالی تھیں۔ چیف جسٹس نے خط لکھا کہ سیٹیں فل کی جائیں تاکہ پینڈنگ کیسز نمٹائے جا سکیں۔ حکومت ٹالتی رہی۔ ان کے پاس کوئی جواز نہیں تھا، خواہ مخواہ انکار کیا جاتار ہا، شائد کسی منظور نظر شخص کو اوپر نہ بھیجنا مقصود ہو۔ بہرحال جھگڑا بڑھتا گیا۔ بعد میں جج دے دئیے گئے مگر تب تک توہین عدالت کی کارروائی عدالت میں چلنا شروع ہوچکی تھی جو چلتی رہی اور پھر زبردست تصادم کی نوبت آئی ، جس میں مسلم لیگ کو سپریم کورٹ پر حملہ بھی کرانا پڑا۔ یہ سب تاریخ کے اوراق ہیں، انہیں بھول نہیں سکتے اور جو دھبے لگ گئے ہیں، انہیں یوں آسانی سے مٹایا بھی نہیں جا سکتا۔