اس وقت مادر وطن میں چند سوالات اور قیاس آرائیوں کی گونج ہے، پوچھا جا رہا ہے کہ اگر معاشی مسائل درپیش ہیں تو کیا 8 اکتوبر تک ان کو حل کر لیا جائیگا؟ سیکورٹی کی صورتحال اکتوبر تک قلعی بہتر کرنے کی کیا ضمانت ہے؟ سینئرقانون دان اعتزاز احسن جس طرح کہہ رہے ہیں: "سپریم کورٹ میں اندرونی خلفشار موجود ہے، اگر ججز کھڑے رہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں روکا جاسکتا اور آئین شکنی کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی". کیا اس صورتحال میں وکلاء کی کوئی بڑی تحریک سر اٹھا سکتی ہے؟ ویسے اعتزاز احسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وکلاء سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دیکھا کرتے ہیں اور وکلاء کی تحریک کسی بار کی باڈی کے فیصلوں کی مرہون منت ہوا کرتی ہے، انھوں نے کہا کہ میں تو اس وقت کسی بار کا عہدیدار نہیں لیکن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس ضمن میں اپنے کردار کے تعین سے متعلق سوچ بچار کر رہی ہے، ایسے سوالات کے علاوہ قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ آئندہ اگست میں حکومت کی مدت پوری ہونے کے باوجود انتخابات کا ڈنکا نہیں بجایا جائیگا، ستمبر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مدت بھی پوری ہوجائیگی مگر دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی حکومتوں کی عدم موجودگی کے با عث چئیر مین سینٹ کو یہ عہدہ سونپا جاسکتا ہے اور اس طرح سے معاشی ایمرجنسی وغیرہ کے نام پر کوئی سیٹ آپ اصلاحات کے نام پر سامنے آسکتا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں! کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلی ایک سال تک اقتدار میں رہنے کی تیاری کیے بیٹھے ہیں، جس کا اظہار کچھ جگہوں پر نجی محفلوں میں کیا جا چکا، کے پی کے وزیر اعلیٰ کی شہرت پر کسی جانب سے کوئی اعتراض نہیں، وہ سول سروس میں اپنی قابلیت اور دیانت کا لوہا منوا چکے ہیں، ان کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ برائے نام نگران وزیر اعلی ہیں، تقرر تبادلوں تک کا اختیار انکے پاس نہیں، جن گورنر صاحب نے الیکشن کمیشن کو کے پی کے، کے انتخابات 8 اکتوبر کو پنجاب کیساتھ کروانے کی تجویز کا خط تحریر کیا ہے، انکے آفس میں نگران وزیر اعلی کے پی کے، کے تمام اختیارات استعمال کیے جاتے ہیں، کہنے والوں کا منہ اب کون بند کرے، یہ بھی کہتے ہیں کہ گورنر کے پی کے کی بابت اصل اختیارات فضل الرحمان کے پاس ہیں، کیا عملاً وہاں گورنر راج ہے؟ جب بازگشت ہے کہ نگران وزیر اعلی سے کسی کی زیادہ ملاقات نہیں ہونے دی جاتی اور افواہ ساز کارخانہ اس حد تک سرگرم ہے کہ نگران وزیر اعلی کے پی کے کو انکے قریبی لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپکی اتنی نیک نامی ہے، آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں، استعفی دیں اور گھر چلے جائیں، ایسی خبروں کی تصدیق یا تردید تو بہرحال متعلقہ افراد ہی کر سکتے ہیں لیکن ہم نے ایسے سوالات اور افواہوں کو قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بھی کہنا ہے کہ ماضی میں فوجی ڈکٹیٹر 90 روز میں انتخابات کروانے کا اعلان کر کے آیا اور گیارہ سال انتخابات نہیں ہوئے، اس وقت پورے ملک سوال اٹھ رہا ہے کہ آئین کے مطابق انتخابات کو 8 اکتوبر تک ملتوی کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور کیا 8 اکتوبر کو بھی انتخابات ہونگے یا نہیں؟ سپریم کورٹ کا آئینی و قانونی کردار اور ذمہ داری ان حالات میں سب سے اولین ہوچکی ہے، دو صوبوں میں انتخابات کے التواء سے متعدد آئینی بحران بھی جنم لیتے ہیں، جیسے صدر مملکت کی مدت پوری ہونے پر کیا ہوگا؟ کون کیا کردار ادا کریگا؟ ان تمام بحرانوں کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے 1973 کے آئین کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، جسے ذاتی خواہشات کی تکمیل اور سیاسی اہداف کی غرض سے بالائے طاق نہیں رکھا جاسکتا، موجودہ 13 جماعتیں مگر اپنے سیاسی اتحاد کے زعم میں یہ لکیر عبور کر رہی ہیں، قانونی حلقوں کا اس تناظر میں ایسا موقف درست ہے کہ سپریم کورٹ کا عین آئینی و قانونی کردار حکومت اور حکومت سے باہر تمام سیاسی جماعتوں کیلئے حد سے زیادہ سود مند ہوگا وگرنہ کسی آئین سے متصادم مشق کا نقصان ملک کو ہوگا اور کوئی سیاسی جماعت ملک سے بالا نہیں ہوسکتی کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں ملک و ملت کی آئین و قانون کے تحت تعمیر و ترقی کے حلف کے تابع رجسٹرڈ ہوتی ہیں، موجودہ حکومت اس وقت بلا شبہ عمران خان کی جماعت سے انتخابات میں شکست کے خوف میں مبتلا ہے لیکن انکو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ انتخابات کو من چلے کا سودا سمجھ بیٹھیں، جس کا عملی مظاہرہ جاری ہے، اگر حکومت ایسا کرنے میں ہر جانب سے کامیاب ہوجاتی ہے یا حکومتی طاقت کے استعمال کی صورت میں اس پر بضد رہتی ہے تو پھر یہ جمہوریت کی آڑ میں آمریت ہوگی اور آمروں کا سیاسی انجام سب کے سامنے ہے، ہاں البتہ پرویز مشرف آرٹیکل 6 سے بچ گئے تھے، کیا جمہوری آمر بچ پائیں گے؟