ایک طرف ملک میں سیاسی تماشہ لگا ہوا ہے دوسری طرف بارکھان کے واقعہ نے سب کو مغموم کر دیا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے وزراء کی تنخواہیں اور مرعات ختم کرتے ہوئے سرکاری گھر ، گاڑیاں نیلام کرنے کے ساتھ یہ بھی’’ خوشخبری‘‘دی ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدہ سے مہنگائی بڑھے گی ۔وزیر اعظم کی طرف سے وزراء کی مراعات ختم کرنے کا اعلان اپنی جگہ مگر انہوں نے کابینہ کا سائز کم نہں کیا۔ اس پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا یہ کہنا غلط نہیں کہ عوام کے لئے کچھ کرنا ہے تو باہر رکھا پیسہ واپس لائیں ۔ حکومت کو غریبوں سے ہمدرد ی ہے تو مہنگائی کی صورت میں غریبوں سے قربانی کا تقاضہ کرنے کی بجائے حکومت اور بااثر طبقات خود قربانی دیں اور ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کریںجس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ختم ہونا چاہیے اور غریبوں مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے تعلیم ،صحت اور روزگار کے مواقع مہیا کئے جائیں۔ملک میںسیاسی تماشہ ختم ہونا چاہئے انفرادی نہیں اجتماعی جمہوریت کی ضرورت ہے ۔سیاسی جماعتوں کے قائدین کواپنی جماعتوں کے اندر آمریت ختم کر کے جمہوریت لانا ہوگی ۔ بارکھان کے واقعہ پر بات کرنے سے پہلے یہ بتاناچاہتا ہوں کہ صدر مملکت کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے صوبائی اسمبلیوں کی الیکشن کی تاریخ دینے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطاء بندیال نے از خود نوٹس لیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184/3نو رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے صدر مملکت کی جانب سے صوبوں میں الیکشن تاریخ دینے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ صدر کو صوبائی انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ۔ اٹارنی جنرل کی منطق اور دلیل اپنی جگہ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اب تو صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ دے دی ہے الیکشن کمیشن کس طرح اختلاف کر سکتا ہے ۔ جہاں الیکشن الیکشن کھیلا جا رہا ہے تو وہاں تحریک انصاف کی طرف سے جیل بھرو تحریک شروع ہو چکی ہے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی ، اسد عمر ، اعظم سواتی ، اور ولید اقبال سمیت دو سو کارکنوں کو گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا ہے ۔تحریک انصاف کا اپنا ایجنڈا ہے اور پی ڈی ایم کا اپنا موقف مگر عوام مہنگائی سے کچلے جا رہے ہیں ۔ اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ، ایک لحاظ سے یہ بات بھی ہے کہ جب پی ڈی ایم اپوزیشن میں تھی الیکشن کا مطالبہ کرتی تھی ۔ اب وہ الیکشن کیوں نہیں کرانا چاہتی ؟عوام کو ذہنی اذیت سے کیوں دو چار کیا جا ررہا ہے ۔ بارکھان کے واقعہ نے سب کو رلا کر رکھ دیا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بلوچستان کے و زیر مواصلات سردار عبدالرحمن کھیتران کو حراست میں لے لیا گیا پولیس کے مطابق عبدالرحمن کھیتران کو بارکھان میں تین افراد کو قتل کیس میں پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کے بعد گرفتارکیا گیا۔واضح رہے مقدمہ میں سردار عبدالرحمن کھیتران کو نامزد نہیں کیا گیا آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق نے کہا کہ سانحہ بارکھان کا مقدمہ پولیس کی مدعیت درج کرکے کیس کرائم برانچ کے حوالے کر دیا گیا ،واقع کی تحقیقات کیلئے ایک سپیشل تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی ایڈیشنل آئی جی پولیس جواد ڈوگر کریںگے واقعہ غیر جانبدار نہ تحقیقات ہونگی اور سردار عبدالرحمن کھتیران کو شامل تفتیش کیا جائے گا جو بھی ملوث ہوگا قانون سے بالا ترنہیں ہوگا دریں اثنا سانحہ بارکھان کے بعد سردار عبدالرحمن کے بیٹے سردار انعام شاہ نے ویڈیو بیان انکشاف کیا ہے کہ مغویوں سے زبردستی بیانات لیے جارہے ہیں ہمارا واقعہ سے تعلق نہیں ہے لیکن وہاں کے حالات و واقعات اس بات کی تصدیق نہیںکرتے ۔بلوچستان میںغریبوںکا جینا روز بروزمشکل ہو رہا ہے ۔بلوچستان کی لیڈر شپ کا تعلق بالا دست طبقے سے ہے ۔ بلوچستان کو سرداروں کی نہیں غمخواروں کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان کے عام آدمی کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو بہکانے والے وطن دشمنوں کا اصل چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے ، اس کے اپنے وسائل بہت زیادہ ہیں ، این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں بلوچستان کو مرکز سے بھی فنڈز ملتے ہیں مگر یہ فنڈز عام آدمی کی بہتری یا بلوچستان کی ترقی کی بجائے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ بلوچستان کے عام آدمی کیلئے جاپان نے فنڈز دیئے ، گوادر کے حوالے سے چین بھی دل کھول کر سرمایہ کاری کر رہا ہے مگر بھارت و افغانستان کی بلوچستان میں مداخلت کے باعث سننے میں آیا ہے کہ چین گوادر کی بجائے کراچی کے ساحل پر نئی بندرگاہ کی تلاش میں ہے ۔ بلوچستان اور پاکستان کی بہتری اس میں ہے کہ بلوچستان میں سرداروں کی بجائے عام آدمی کو مضبوط کر کے قانون کی حکمرانی قائم کی جائے ۔پچھلے دنوں بارکھان اور لورا لائی جانے کا اتقاق ہوا بارکھان اور لورا لائی محلق اضلاع ہیں لورا لائی میں پشتواور سرائیکی بولی جاتی ہے جب کہ بارکھان کی زبان کھیترانی ہے جوسرائیکی کے قریب ہے بلوچستان میںبراہوی، بلوچی، پشتو اور سرائیکی ، سندھی علاوہ بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیںلیکن قبائل کے حوالے سے وہاں کا مزاج سرداروں والا ہے۔ عام آدمی کی وہاں کوئی حیثیت نہیں۔بلوچستان کے معدنی و دیگر وسائل کا فائدہ عام آدمی کو ملنا چاہیے۔ 1881ء میں تحصیل چوٹالی (سبی) جو دُکی میں شامل تھا کو ہرنائی پولیٹیکل ایجنسی کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1881ء میں سنجاوی کو برطانیہ کے زیر تسلط میں آ گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ 1883ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دُکی میں چھاونی قائم کی جائے اور تحصیل چوٹالی (سبی) کو چھاونی بنا دیاجائے۔ گمباز کو ختم کر دیا جائے۔اکتوبر 1884ء کو ایک فوج جس میں 4800 آدمی تھے کو بوری (لورالائی) وادی میں بھیجا گیا اور یہ مشن مکمل طور پر کامیاب تھا۔ اُسی سال یہ فیصلہ کیا گیا کہ فرنٹیر سڑک بنائی جائے جو ڈیرہ غازی خان کو براستہ لورالائی پشین سے ملائے۔اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ مواصلاتی نیٹ ورک مضبوط بنایا جائے ۔