چند روز ہوئے ،گوجرانوالہ کی خاتون ٹیچر کو اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل ٹیچر پرائز سے نوازا گیا۔انہیں دس لاکھ ڈالر کا ایوارڈ ملا۔کرکٹ ورلڈ کپ کے ہنگاموں، سیاست دانوں کے نامعتبر بیانات اور اپنے گرد پھیلے بد صورت منظروں کے ہجوم میں ہمیں یہ خاتون نظر ہی نہیں آئیں۔ رفعت عارف سسٹر زیف کے نام سے مشہورایک سرگرم کارکن ہیں، وہ بنیادی طور پر لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کو بااختیار بنانے کی زبردست حامی ہیں۔ انکا سفر 1997 میں اس وقت شروع ہوا جب وہ 13 سال کی تھیں ۔ ان کی استاد نے انہیں بھری کلاس کے سامنے مارا۔رفعت کو درد کے ساتھ عزت نفس مجروح ہونے کا دکھ بھی تھا۔ تب سسٹر زیف نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی کسیسکول نہیں جائیں گی،انہوں نے اس کے بجائے اپنے صحن میں سکول شروع کیا۔ سسٹر زیف گھر گھر جا کر لوگوں سے اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجنے کے لییکہتیں۔ کئی برسوں کی محنت کے دوران انہوں نے سینکڑوں نوجوان لڑکیوں کو تعلیم دی ساتھ میں ہنر کی تربیت کے ذریعے بہت سی خواتین کو بااختیار بنایا ۔تعلیم و تربیت کا یہ ماڈل پاکستانی سماج کے نچلے طبقات کے لئے فائدہ مند رہا۔ہماری حکومتیں جب اداکاروں، پسندیدہ ادیبوں اور دیگر سفارشیوں کو ایوارڈ دے رہی تھیں تو عالمی ادارے پاکستان میں عظیم خدمات انجام دینے والوں کو تلاش کرنے میں مصروف تھے۔ان کی نظریں ہم سے پہلے ہمارے ہونہار لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ ساتویں جماعت میں سکول چھوڑنے کے بعد سے، سسٹر زیف نے خود پڑھااور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات اور تاریخ میں دو ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔اپنے کام کی مناسبت سے وہ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں بیچلر حاصل کر رہی ہیں۔ رفعت عارف کو اپنے سکول کی اساتذہ کی طرف سے برے اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔وہ سکول میں لیڈر تھیں اور وکیل بننے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ جب وہ تیرہ سال کی تھیں تو خواتین کے حقوق پر ان کا پہلا مضمون بڑے اخبار میں شائع ہوا۔ رفعت عارف نے 1997 میں خود کو، اپنی چھوٹی بہن کو اور بہن کی دوستوں کو گھر میں پڑھانا شروع کیا۔ اسی دوران رفعت نے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے کڑھائی سیکھی۔ انہوں نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے دوسری لڑکیوں کے لیے مفت تعلیم کا اعلان کرتے ہوئے اپنے پڑوسیوں میں فلائر تقسیم کیے۔2008 میں رفعت عارف نے اپنی کہانی آن لائن شیئر کرنا شروع کی۔لڑکیوں نے ابتدائی طور پر سسٹر زیف کی مالی مدد سے کھلی چھت والے کرائے کے مکانات میں اپنا مشن شروع کیا۔ زیفنیا وومن ایجوکیشن اینڈ ایمپاورمنٹ فاؤنڈیشن کے کام سے دنیا متاثر ہو رہی تھی۔2013 میں، سسٹر زیف نے ایک ایوارڈ جیتا جس سے انہیں 20,000 ڈالر کی رقم ملی۔اس رقم سے وہ اپنے سکول کی توسیع کرنے، مزید اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے اور گوجرانوالہ میں ایک پیشہ ور مرکز قائم کرنے کے قابل ہو گئیں۔یہ مرکز طالب علموں اور مقامی خواتین دونوں کی خدمت کرتا ہے۔سسٹر زیف کے ادارے میں آئی ٹی اور ڈیجیٹل مہارت، انگریزی، سلائی، ہیئر ڈریسنگ ، میک اپ اور مارشل آرٹس کی کلاسز ہوتی ہیں ۔اس ادارے میں گارمنٹس کا ایک کارخانہ بھی ہے، جسے 30 خواتین چلاتی ہیں اور جن کی آمدنی واپس سکول اور سینٹر کو ملتی ہے۔ دستیاب معلومات سے پتہ چلا کہ2015 میں سسٹر زیف کی تنظیم ایک رجسٹرڈ تعلیمی ادارہ بن گئی۔ 2016 تک ان کی تنظیم نے 500 سے زیادہ لڑکیوں کو تعلیم دی اور 100 کو مالی طور پر بااختیار بنایا۔ 2023 تک سسٹر زیف کا سکول کنڈرگارٹن سے لے کر دسویں جماعت تک 200 طلباء کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے قابل ہو چکا ہے ۔ان کے ہاں جو اساتذہ کام کر رہے ہیں، اکثر ان کے سابق طلباء ہیں۔ Zephaniah ویمنز ایجوکیشن اینڈ ایمپاورمنٹ فاؤنڈیشن (ZWEE) ان بچوں کے لیے ہفتہ وار دوپہر کی دو بار کلاسز کا بھی اہتمام کرتی ہے جو کُل وقتی طور پرسکول نہیں جا سکتے۔ ایسے بچے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ سسٹر زیف کا کہنا ہے کہ وہ شفقت اور پیار سے تعلیم دینے کی وجہ سے اس مقام تک پہنچی ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ "جب کوئی استاد بچوں کے ساتھ پیار دکھاتا ہے تو وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ گھر سے زیادہ دور نہیں ہیں، وہ صرف ایک اور ماں کے ساتھ ہیں... مجھے اپنے بچپن سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں ملا ۔ میں چاہتی ہوں کہ بچوں کو لاڈ پیار اور توجہ دی جائے اور ان کا بچپن برقرار رہے۔ سسٹر زیف اور ان کے ادارے میں کام کرنے والے اساتذہ طلبہ پر جسمانی سزا کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔مار نہیں پیار کا اصل روپ سرکار کے ادارے تو نہ دکھا سکے،سسٹر زیف اکیلی سرکار کے تعلیمی نظام سے جیت گئیں۔ رفعت عارف ان بچوں کی تعلیم پر بہت زور دیتی ہیں جو اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ سکول جانا چاہتے ہیں، وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ تعلیم ایک اچھی خوراک یا بہتر گھر سے زیادہ اہم ہے۔ 2015 میں رفعت عارف کی زندگی، ان کے تین طالب علموں کی بچپن کی شادیوں، جسمانی سزا اور سماجی دباؤ کے خلاف جدوجہد، لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو تعلیم کے ذریعے بااختیار بنانے کے کام پر دستاویزی فلم بنائی گئی۔سسٹر زیف اور ان کے سکول کی دستاویزی فلم کی کوریج نے ملالہ فنڈ کی توجہ حاصل کی۔فنڈ نے مدد کی پیشکش کی۔اس دستاویزی فلم نے 2015 کے ایشیا پیسیفک چائلڈ رائٹس ایوارڈ برائے ٹیلی ویژن کے فائنل مرحلے میں جگہ بنائی اور نیویارک فیسٹیول 2016 میں بہترین دستاویزی فلم: کمیونٹی پورٹریٹ کیٹیگری میں گولڈ میڈل جیتا۔ سسٹر زیف نے 2014 میں Lynn Syms پرائز جیتا، جس نے انہیں گراس روٹپر لیڈر کے طور پر اعزاز بخشا۔2023 میں سسٹر زیف نے اپنی کامیابیوں کے اعزاز میں 1 ملین ڈالر کاگلوبل ٹیچر پرائز جیتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ انعامی رقم کو سکول کی عمارت بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں گی۔ سسٹر زیف ایک روشن چہرہ ہے جو تاریک بنا دئے گئے پاکستانی سماج میں لو دے رہا ہے۔ایسے کتنے ہی چراغ ہیں جو گلی کوچوں میں ٹمٹما رہے ہیں، انہیں ارد گرد کے لوگوں سے حوصلہ افزائی کا تیل درکار ہے۔حکومتی خزانے بالائی طبقات کے قابو میں آنے کے بعد ہمیں سسٹر زیف جیسی روشنیوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔