پاکستان میں تبدیلی اورنظام کی باتین سن سن کر کان پل گئے۔۱۹۷۳ کادستور بن جانے کے بعد یہ بحث ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن اس دستور پر عمل کسی نے نہ کیا ۔یہی وجہ ہے کہ اب تک عوام کو دستور سے ہٹ کر مختلف بھول بلیوں میں اتارا جاتا رہا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس دستور کی موجودگی کے باوجودہمارے حکمران پہلو تہی کرتے رہے،ہماری عدالتیں اور اسمبلیاں دستور پر عملدرآمد یقینی بنا سکیں نہ ہی ہمارے حکمران۔تھوڑی دورہر راہرو کے ساتھ چلنے کے بعد ہمارے عوام اپنی منزل کھو دیتے ہیں اور ستم یہ ہے کہ پھر شکوے بھی کرتے ہیں۔انسانوں کے اندر تبدیلی یا انقلاب لانے کے لیے دلوں کا بدلناضروری ہے۔یہ ایک پراسس ہے جس کی مثال رسول اللہ ﷺ کی جدوجہد سے ملتی ہے۔صر ف تیئس برس کی مختصر مدت میں مدینہ میں ایک ایسی ریاست قائم کردی جس نے آنے والے دورمیں وسعت اختیار کی۔افراد کے اندرتبدیلی کے بعد اس نقلاب نے معاشرے کوجونظام دیا، وہ حیرت انگیز ہے۔ حضوؐر نے اسلامی ریاست کی بنیاد مدینہ میں رکھی تو اس وقت زیادہ سے زیادہ یہ علاقہ ایک سو مربع میل ہوگا۔ آٹھ نو سال کے قلیل عرصے میں یہ ریاست پھیل کراکیس لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگئی جس میں کوئی طبقاتی کش مکش نہ تھی، جس میں نسب کے فخر اور نسل کی عصبیت کا خاتمہ ہوگیا، جس میں امیروغریب اور عالم اور اَن پڑھ بھائی بھائی بن گئے، جس میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے، جس میں لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرنے والے، سرکاری مال اور فرائض میں خیانت کرنے والے اور رشوتیں سمیٹنے والے نہ تھے، جس میں ہر کوئی دوسرے کے کام آتا تھا اور اپنے بھائی کو سہارا دیتا تھا۔ یہ بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر کی مہم تھی۔ اس انقلاب کی روح انسان سے محبت تھی اور حضوؐر نے بڑی شفقت سے معلّمانہ انداز پر پہلے مکہ میں تیرہ سال تک اور پھر مدینہ میں دس برس تک ایسے کام کیاکہ غلاموںکو انسانیت کی معراج تک پہنچا دیا۔کتنا مشکل تھامکہ کا دور ۔ آپؐ کے رفیق تپتی ریت پر لٹائے گئے، ان کے سینوں پر پتھر رکھے گئے، ان کی پیٹھوں کے نیچے دہکتے انگارے ٹھنڈے ہوگئے، کسی کے گلے میں رسّی ڈال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا، کسی کو تازیانے مارمار کر ادھ موا کر دیا گیا اور کسی کو اذیت دے دے کر جان ہی لے لی ۔آپﷺ نے صبر اور دعوت کا دامن نہیں چھوڑا،یہاں تک کہ معاشرے میں انقلاب آگیا۔رسول اللہﷺ کے انقلاب کی رحمت و برکت کو دیکھ کر کر جب ہم دوسرے انقلابی نظریوں اور فلسفوں کو دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باطل کے مختلف روپ ہیں۔اس انقلاب کی جب ابتداء ہوئی توچند لوگ تھے لیکن کردار کے اجلے،مکہ کے بڑے بڑے سرداروں کو جب ان چند نے نئے دور کی خبر دی تو بظاہر وہ تلواریںنکال کر کھڑے ہو گئے تھے لیکن بہ باطن وہ جانتے تھے سچ وہی ہے جو ان چند کے پاس ہے۔ ایوب خان سے اب تک وہ لوگ اقتدار میں ساتھ ساتھ رہے ،جن کی نسلیں اس ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرتی رہی ہیں، جو ہردور میں اقتدار کے ایوانوںمیں پہنچ جاتے ہیں۔انقلاب کردار اور عمل کی یکسوئی مانگتا ہے،انقلاب سب سے پہلے ذات سے شروع ہوتا ہے۔پھر معاشرہ انقلابی کے کردار اور عمل کو دیکھتا ہے۔رسولِ اکرم ﷺ نے عرب معاشرے کو باہم شیر و شکر کر دیا اور ان میں مساوات اور اخوت و مروت کی روح پھونک دی۔ عربی اور عجمی کی تفریق ختم کر کے تقویٰ کو معیارِ فضیلت قرار دیا۔ صحابہ کرام ؓنے عہد جاہلیت کی تمام رسومات چھوڑ دیں۔ان کی زندگیوں میں تبدیلی آگئی۔ اسی تبدیلی نے انقلاب برپا کر دیا اور اس انقلاب نے زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ معاشرہ ہر پہلو سے خوشگوارانقلاب سے بدل کر رہ گیا۔ علامہ نعیم صدیقیؒ لکھتے ہیں : ''انبیاء کرام کے سوا کوئی عنصر تاریخ میں ایسا دکھائی نہیں دیتا جو انسان کو اندر سے بدل سکا ہو۔ حضور اکرم ﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت نے پورے کے پورے انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغۃ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسے سے لے کر عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا۔ ذہن بدل گئے۔ خیالات کی رو بدل گئی۔ نگاہ کا زاویہ بدل گیا۔ عادات و اطوار بدل گئے۔ رسوم و رواج بدل گئے۔خیر و شر کے معیارات اور حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے۔ اخلاقی قدریں بدل گئیں۔ قانون اور دستور بدل گیا۔ جنگ و صلح کے اسالیب بدلے اور تمدن کے ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی اور اس پوری کی پوری تبدیلی میں جس کا دائرہ ہمہ گیر تھا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ ہر طرف بنائوہی بنائو تھا۔ تعمیر ہی تعمیر اور ارتقاء ہی ارتقاء ہے۔ حضرت جعفرؓ ان نوّے مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مکہ معظمہ سے ہجرت کی اور حبشہ میں پناہ لی تھی۔ انہیں حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی کے سامنے پیش کیا گیا تو آپؓ نے بھرے دربار میں فرمایا۔ '' ہم جہالت میں مبتلا تھے۔ بتوں کو پوجتے تھے۔ نجاست سے آلودہ تھے۔ مردار کھاتے تھے۔ اپنے ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے۔ طاقتور، کمزوروں کی دولت ضائع کر دیتے تھے۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے ہم میں سے ایک بزرگ ہستی کو مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب، سچائی، دیانت داری، تقویٰ اور پاکیزگی سے ہم خوب واقف تھے۔ اس نے توحید کی دعوت دی اور سمجھایا کہ ایک اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانو۔ بتوں اور پتھروں کی پرستش سے رُک جائو،جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے۔ سچ بولنے کا حکم دیا۔ اپنے زیر دستوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ڈالی۔ اپنے رشتہ داروں سے شفقت اور ہمسایوں سے اچھے سلوک کا حکم دیا۔ ہم برے کاموں سے باز آگئے۔ آوارگی اور خونریزی سے رک گئے۔ آپﷺ نے ہمیں جھوٹی شہادت سے منع فرمایا۔ اور یتیموں کو ان کی جائیداد سے محروم نہ کرنے کا حکم دیا۔ عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کے ارشادات کو دل و جان سے قبول کیا۔ ہم اس کی صداقت پر ایمان لے آئے۔ ہم نے ان تمام احکام کی پیروی کی جو اللہ نے ان کے ذریعے ہم تک پہنچائے، ہم اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آئے۔‘‘ ہم ایک ایسے معاشرہ میں ہیںجہاں پہلے سے زمین ہموار اورپانی وافر ہے،اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ماننے والے بھی ہیںلیکن دور دور تک سراب ہے نرا ،سراب۔