مشرف کو کشمیر پر چارنکاتی فارمولہ کی حمایت کے لیے موثر سیاسی قوتوں کی تائید درکار تھی۔سردار عبد القیوم خان جیسے جہاندیدہ سیاست دان کا تعاون انہیں دستیاب ہوگیا۔ سردار عبد القیوم خان کو مشرف کا تعاون چاہیے تھا تاکہ مظفرآباد کی کرسی پر اپنے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کو متمکن کرسکیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے لگے۔ الیکشن سے قبل ہی سردار عتیق خان کو وزیراعظم کا پروٹوکول دیا جانے لگا۔ مسلم کانفرنس کی فتح نوشتہ دیوار تھی۔ برسٹرسلطان کہتے ہیںکہ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ کوئی ان کا فون سننے کا روادار نہ تھا۔مشکل سے چودھری شجاعت سے ایک دوست نے فون پر رابطہ کرایا۔ معذرت خواہانہ انداز میں انہوں نے کہا: بیرسڑ صاحب ہم نے مسلم کانفرنس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ مشرف صاحب کا حکم ہے۔ الیکشن میں بیرسٹر سلطان کی پیپلزمسلم لیگ بری طرح پٹ گئی۔ بعدازاں وہ پی پی پی میں دوبارہ اس امید پر شامل ہوئے کہ انہیں وزارت عظمی پر فائز کیاجائے گا لیکن پی پی پی نے انہیں وزارت عظمی کا ’’لولی پاپ‘‘ دے کر پرانا بدلا چکایا۔ چنانچہ ناراض اور ناخوش بیرسٹر سلطان محمود کے پاس پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اگرچہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور کراچی میں مقبول پارٹی تھی لیکن آزادکشمیر کے سیاسی منظرنامہ میںجگہ نہیں بناپارہی تھی۔عمران خاں نے سردار خالد ابراہیم خان مرحوم کو پی ٹی آئی کی کشمیر میں قیادت کرنے کی درخواست کی۔ دوچار ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن دونوں کی کیمسٹری نہ ملی۔ پانچ فروری 2021 کو آزادکشمیر کے الیکشن سے محض پانچ قبل بیرسٹر سلطان اسلام آباد میں عمران خاں کی موجودگی میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔عمران خاں اسٹیج پر نشست سنبھال چکے تھے تو بیرسٹر سلطان نعروں کی گونچ میں ہال میں ایک فاتح کی طرح داخل ہوئے۔ سارا وقت ہال بیرسٹر کے نعروں سے گونچتارہا۔ عمران خاں نے حیرت سے اپنے ایک ساتھی کے کان میں سرگوشی کی: آج سے پی ٹی آئی میں میرے علاوہ ایک اور لیڈر آگیا ہے۔ آزادکشمیر کی الیکشن مہم میں بیرسٹر نے جہانگیر ترین کی مدد سے اپنی مرضی کے امیدواروں کھڑے کیے۔ بھرپور الیکشن مہم چلی لیکن بیرسٹر سلطاننہ صرف خود الیکشن ہار گئے بلکہ آزادکشمیر سے پی ٹی آئی کو ایک بھی نشست نہ ملی۔ عمران خاں نے ایک محفل میں کہا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی جب حکومت ہوگی تو کشمیر ہماری جھولی میں پکے ہوئے پھل کی ماند آگرے گا۔ آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی صدارت سنبھالنے کے بعد اگرچہ بیرسٹر سلطان عمران خاں سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے لیکن دونوں کے درمیان کبھی دوستانہ تعلقات استوار نہ ہوسکے۔ بقول نصیر ترابی کے کیفیت کچھ رہی وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی۔ عمران خان جلسوں میں بیرسٹر سلطان کانام تک لینا گورا نہ کرتے حالانکہ بیرسٹر خون پسینہ ایک کرکے کشمیر کے طول وعرض میں ان کے لیے عظیم الشان جلسے منعقد کراتے۔ خان نے کبھی بھی دل سے بیرسٹر کو ایک لیڈر کے طور پر قبول نہ کیا۔ بیرسٹر دھڑے کی سیاست کرتے ہیں وہ پارٹی کے اندر بھی دھڑا بناکر کھیلتے ہیں۔ پارٹی کے اندر جو نظریاتی یا پرانے لوگ تھے وہ رفتہ رفتہ بیرسٹر کے خلاف متحرک ہوگئے کیونکہ وہ نظر انداز ہورہے تھے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو آزادکشمیر میں پارٹی کے نظریاتی لوگ متحرک ہوگئے۔انہیں مرکزی پارٹی کی بھی پشت پناہی حاصل تھی۔ یوں بیرسٹر سلطان اور نظریاتی ورکروں اورلیڈروں کے درمیان زبردست خلیج پیدا ہوگئی۔ راجہ مصدق خان جو پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے، الگ دفتر لگاتے جب کہ بیرسٹر اپنی محفل ایک اوردفتر کے سبزہ زار پر سجاتے۔ اس کشمکش میں سردار تنویر الیاس ایک متبادل آپشن کے طور پر منظر عام پر ابھرے۔ بیرسٹر سلطان نے خطرہ بھانپ کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ الیکشن نہ لڑیں۔ بلکہ الیکشن کے بعد صدر آزادکشمیر بن جائیں لیکن تنویر الیاس ہٹ کے پکے نکلے۔ بیرسٹر سلطان کے پارٹی کی مرکزی لیڈرشپ کے ساتھ بھی سازگار مراسم نہ تھے۔ اس کے برعکس وزیرامور کشمیر علی امین گنڈا پور کی تنویرالیاس سے گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں کے مشاغل اور دلچسپیاں بھی ایک جیسی تھیں۔ شب بھر مشغول رہتے اور دن بھر محو استراحت ہوتے۔ علی امین نے بھی اپنا بوریا بستر سینٹورس میں منتقل کرلیا۔ کشمیر کے معاملات میں علی امین اسٹبلشمنٹ کے ساتھ فوکل پرسن تھے۔ تنویر الیاس نے سینٹورس میں پی ٹی آئی کی دوسری صف کی لیڈرشپ کو مدعو کرنا شروع کردیا۔ تحفے تحائف کا تبادلہ کیا جانے لگا۔ بیرسٹر سلطان محمود سے شاکی اور نئی لیڈرشپ کے متمنی لوگ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تنویر الیاس کے پاس مالی وسائل بھی بے محابا تھے اور روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہانے کا دم خم بھی۔ بتدریج بیرسٹر سلطان کے مرکزی دفتر میں لوگوں کی آمد رفت کم ہوتی گئی جہاں وہ قہوے کی پیالی اور بسکٹوں سے مہمانوں کی توضع کرتے تھے۔اس کے برعکس سینٹورس میں دن رات لنگر چلتا۔ بیرسٹر سلطان محمود کے پاؤں کے نیچے سے چادر سرک رہی تھی۔ سیاست ان کے ہاتھ سے ایسے پھسل رہی تھی جیسے ریت مٹھی سے۔بچاؤ کے لیے انہوں نے کافی ہاتھ پاؤں مارے۔ کئی مرتبہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے۔ جنرل باجوہ اپنے جاٹ بھائی بیرسٹر کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی پوزیشن نہیں لے پاتے تھے۔بیرسٹر کی باجوہ کے ساتھ میٹنگوں کا جنرل فیض کے ساتھی بہت برا مناتے۔ انہوں نے کئی بار بیرسٹر کو منع کیا کہ وہ انہیں بائی پاس نہ کرے لیکن بیرسٹر کو یقین تھا کہ جنرل فیض اور ان کے ساتھی تنویر الیاس کا ساتھ دینے پر کمر بستہ ہوچکے ہیں لہٰذا ان کا سارا انحصار جنرل باجوہ کی حمایت پر تھا۔ (جاری ہے)