وہ زیادہ دیر کسی بھی شخص سے خوش نہیں رہ سکتے تھے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ میرپور میں ایک تقریب میں بری طرح الجھ پڑے۔ بعدازاں ایک طویل پریس کانفرنسمیں وزیراعظم شہبازشریف کو 'کشمیر مخالف' قرار دیا۔ غیر متوازن طرزعمل کی وجہ سے وہ وفاقی حکومت کے ساتھ ادارہ جاتی روابطہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کار استوار کرنے میںبھی بری طرح ناکام رہے۔ ان کی نااہلی کے نتیجے میںکشمیریوں کو بہت بھاری معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ وفاقی حکومت نے تنویر الیاس کی ضد میںترقیاتی بجٹ کی فراہمی میں نمایاں کمی کی۔ خصوصی ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق سے مالی امداد نہ مل سکی۔ نتیجتاً معاشی سرگرمیوںسست پڑھ گئیں۔ بہت سے منصوبے ناکافی فنڈز کے باعث کھٹائی میں پڑھ گئے۔ مزید برآں ان کے دور میں انفراسٹرکچر ڈولپمنٹ کا کوئی ایک بھی نیا منصوبہ شروع نہ کیاجاسکا۔نتیجتاًخطے کی اقتصادی ترقی بری طرح جمود کا شکار ہوئی۔ بطور وزیراعظم وہ کم ہی آزاد کشمیرتشریف لیجاتے۔ایک بار عمران خاں نے انہیں فون کرکے کہا کہ وہ مظفرآباد جائیں۔ زیادہ تر اسلام آباد میںقیام کرتے۔ اسلام آباد میں قائم کشمیر ہاؤس میں سرکاری افسران کے اجلاس طلب کرتے لیکن خود شرکت نہ کرپاتے۔ کابینہ کے اجلاس ایک نہیں درجنوں بار محض اس لیے لیٹ یا ملتوی ہوجاتے کہ موصوف دستیاب ہی نہ ہوتے۔ عالم یہ ہے کہ بارہ ماہ کے دوران اپنے آبائی ضلع پونچھ جانے کا وقت نہ نکال سکے۔ سائل فائلوں کے ساتھ دوڑتے۔ فائلوں کے انبار جمع ہوجاتے۔ سائلین کبھی اسلام آباد میں ان کا تعاقب کرتے اور کبھی مظفرآباد کے چکر کاٹتے۔لوگ ان کے گھر اور دفتر میں صبح آکر بیٹھتے اور رات گئے تک انہیں وزیراعظم کا دیدار نصیب نہ ہوتا۔ سینئر اہلکار انہیں سرکاری امور پر بریف کرناچاہتے لیکن وہ موقع ہی نہ دیتے۔باتوں کے ایسے دھنی کہ جو ہاتھ لگ جائے اس کے ساتھ گھنٹوں بے تکان اور بے ربط گفتگو کرتے۔ وہ صرف اور صرف اپنی آواز سے محبت کرتے۔ دوسرے کی بات توجہ سے سننے اور سمجھنے کا انہیں ہنر ہی نہ تھا۔ انہوں نے کشمیر میں ایک شاہانہ طرز سیاست متعارف کرایا۔اکثر ہیلی کاپٹر اور گاڑیوں کے ایک بڑے قافلے میں سفر کرتے۔ سرکاری خزانہ کو مال مفت دل بے رحم کی طرح برتے۔ ارکان اسمبلی، سابق صدور، وزراعظم اور کابینہ کے ارکان کو سرکاری خزانے سے تقریباً ایک ارب کی لاگت سے بالکل نئی گاڑیاں فراہم کیں۔ مالی بحران کے باوجود اپنے اور صدر کے لیے پرتعیش مرسڈیز بینز کاروں کا آرڈر دیا۔ دوسری جانب ہزاروں بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ پچاس کے لگ بھگ مشیروں، معاونین خصوصی اور رابطہ کاروں کی فوج ظفر موج بھرتی کی۔جس میں سے اکثر کا کام نرگسیت کے شکار تنویر الیاس کی انا کو گنا رس پلانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ حتیٰ کہ عمران خاں کے خلاف ٹی وی پروگراموں میں بے سروپا گفتگو کرنے والے ایک ریٹائرڈ میجر روکھڑی کو اپنا خصوصی ایلچی برائے اسٹیبلشمنٹ بنائے رکھا۔ یہ شخص ٹی وی پر عمران خاں پر لعن طعن کرتا اور رات کو تنویر الیاس کا حقہ بھرتا۔ روکھڑی ایک ادارے میں کسی ذمہ دار عہدے پر فائر ایک افسر کے ساتھ اپنا تعلق جتاتا اورانعام و اکرام پاتا۔تنویر الیاس کے کروفر آزاد کشمیر جیسے غریب اور پسماندہ علاقے کے وزیراعظم کے نہیںبلکہ برونائی کے سلطان جیسے تھے۔ عوامی اجتماعات میں وہ ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مذہبی کارڈ بھی بھرپور طریقہ سے کھیلتے۔ تقریبات میں دوردشریف کے ورد کی تلقین کرتے لیکن جب حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کا ذکر آتا تو وہ اکثر پٹری سے اتر جاتے۔اسمبلی اندر اور باہر ان پر کیچڑ اچھالتے۔ پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنما چودھری لطیف اکبر کی سرعام تذلیل کی۔ بعدازاںمعافی مانگنے ان کے گھر چلے گئے۔ جو کوئی ان کے طرزعمل پر تنقید کرتا۔ اس کی قیمت لگاتے۔ بکنے پر تیار نہ ہوتا تو کردار کشی پر اترآتے۔ دولت کا ایسا گھمنڈ کہ اللہ معاف کرے۔ اکثر کہتے کہ نون لیگ اور پی پی پی کی لیڈرشپ میری جیب میں ہے۔ کیونکہ میں ان کی ضروریات کا خیال رکھتاہوں۔ خوش فہمی کا اس قدر شکار کہ اکثر کہتے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میرے وزیراعظم بننے سے خوف زدہ ہے۔ ماہرین مدح سرائی سر ہلا ہلا ان کی مقبولیت کے راگ الاپتے۔ موصوف جلسوں میں غراتے کہ اگر مجھے نکلا گیا تو اس قدر مزاحمت ہوگی کہ لوگ مقبوضہ کشمیر بھول جائیں گے۔ عدالت نے نااہل قراردیا تو آزادکشمیر میں معمولی سا احتجاج بھی نہ ہوا۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے بھی ان کی نااہلی پر برا نہیں منایا۔ عمران خاں نے ایک ٹویٹ تک کرنا گورا نہ کیا۔ آزادکشمیر کی تحریک انصاف کے لیڈر اور کارکنوں کے لیے یہ خبر قطعاً اضطراب کا باعث نہ بنی۔ تنویر الیاس کے عروج و زوال کی کہانی نے اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے کہ اعلیٰ عہدوں صرف ان ہی لوگوں کو فائز کیاجانا چاہیے جن کی سیاسی تربیت اور عوامی خدمت کا تجربہ ہو۔ نہیں دو سال سے کم عرصے تیسرا وزیراعظم بنانا پڑتاہے۔ عمران خاں اور تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو اس تجربہ سے سبق سیکھ کرپارٹی کی سطح پر فیصلہ سازی کا کوئی سائنٹیف میکنیزم بنانا چاہیے جس کی بنیاد سفارش اور پیسے کے بجائے خدمت اور کردار ہو۔ بیرسٹر سلطان نے پارٹی کی چھ برس تک قیادت کی تھی۔ فقط ضد، سفارش اور لکشمی کے زیر اثر فیصلہ نہ کیا جاتا تو وہ آج وزیراعظم ہوتے۔ عمران خاں اور پی ٹی آئی کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔انہیں یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے۔ کہتے ہیں غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔ عمران خاں نے آزادکشمیر میں حکومت سازی میں جو غلطی کی اس کی انہوں نے ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام کو بھی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ افسوس! سردار تنویر الیاس کا شمار ان وزرائے اعظم میں ہوگا جو اس خطے کی سیاست پر انمنٹ نقوش چھوڑنے میں بری طرح ناکام رہے۔ وہ کوئی ایسی لیگیسی نہ چھوڑ سکے جسے آئندہ نسلیں فخر سے یاد کرسکیں۔