الیکشن سے چندروز قبل بیرسٹر کو الیکشن مہم اور فیصلہ سازی کے سارے معاملات سے اچانک الگ تھلگ کردیاگیا۔ وزیزاعظم ہاؤس یا بنی گالہ میں ہونے والی نشستوں میں انہیں رسماً دعوت دی جاتی لیکن ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ تنویرالیاس اور علی امین گنڈا پور نے پارٹی کی کمان مکمل طور پر سنبھال لی تھی۔ عمران خاں کے ساتھ ہونے والے کئی اہم اجلاسوں میں بیرسٹر سلطان کو مدعو ہی نہیںکیاگیا۔ ایک بار عذر پیش کیاگیا کہ میٹنگ صبح سویرے تھی اور بیرسٹر سے رابطہ نہ ہوسکا۔ وقت کے وزیراعظم عمران خاں کے ساتھ تصویر تنویر الیاس کی سوشل میڈیا کی زینت بنتی تو لوگوں کو مستقبل کی سمت کا اشارہ ہوجاتا۔ گنڈا پور اور تنویرالیاس کئی الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کرانے میںبھی کامیاب ہوگئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ان دونوں کی بھرپور پشت پنائی کی اور انہیں الیکشن جیتنے کے لیے ہرممکن تعاون فراہم کیا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر ٹکٹ ہولڈرز نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ تنویر الیاس نے پارٹی کی الیکشن مہم کے لیے وسائل فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ امیدواروں کو پارٹی نے جو فنڈز دیئے ان کا بڑا حصہ تنویر الیاس نے فراہم کیا۔ میڈیا مہم کے لیے کڑوروں روپے علی امین گنڈا پور نے تنویر الیاس کی تجوری سے نکالے۔وسطی باغ جہاں سے تنویر الیاس نے الیکشن جیتاوہاں خزانے کا منہ کھول دیاگیا۔ بہتی گنگا میں ہر ایک نے اشنان کیا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے اہم عہدیداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے مالی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ چند ہفتے قبل جب کاروباری معاملات پر خاندان میں پھوٹ پڑی تو ان کے والد سردار الیاس خان اور بھائیوں نے ایک پریس نوٹ میں الزام لگایا کہ ان کی رضامندی کے بغیرتنویر الیاس نے مشترکہ کاروبار سے سیاست پر 10 ارب روپے پھونک ڈالے۔ الیکشن کے بعد خصوصی نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو پی ٹی آئی کے پرانے نظریاتی لیڈروں بشمول اس کے بانی صدر راجہ مصدق خان کو پارٹی نے کوئی اہمیت نہ دی۔حتیٰ کہ انہیںمخصوص اور کشمیر کونسل کی نشستوں پر بھی نظر انداز کردیا گیا۔ زیادہ تر مخصوص اور کشمیر کونسل کی نشستیں دولت مند افراد کو منتخب کرایا گیا یا جن کی سفارش کسی بڑی شخصیت نے کی۔ ایسے ایسے لوگ بھی کشمیر کونسل کے رکن بن گئے جن کی شکلیں پی ٹی آئی کے کارکنان نے کبھی دیکھی بھی نہ تھیں۔ الیکشن کے بعد علی امین گنڈاپور اور جنرل فیض کی ٹیم کی کوشش تھی کہ تنویر الیاس کو وزیراعظم کو منتخب کرایا جائے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو نے الیکشن مہم میں چلا چلا کر الزام لگایا تھا کہ عمران خاں نے کشمیر میں پارٹی ایک اے ٹی ایم مشین کو بیچ ڈالی ہے۔ عمران خاں نہیں چاہتے تھے کہ مخالفین تنویر الیاس سے رقم بٹورنے کا ان پر الزام لگائیں۔ انہوں نے بڑی مشکل سے ان ہی دنوں جہانگیرترین سے جان چھڑائی تھی۔ جنرل باجوہ نے بیرسٹر سلطان کی سفارش ضرور کی لیکن جنرل فیض کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ بیرسٹرسلطان اور تنویر الیاس کے درمیان جاری کشمکش میں قرعہ سردار عبدالقیوم خان نیازی کے نام نکلا۔ پونچھ کے ایک سرحدی علاقے کے باسی اس سیاستدان کے کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ ایک دن وہ بھی وزیراعظم منتخب ہوسکتے ہیں۔ نیازی نو ماہ کے لگ بھگ وزیراعظم کی کرسی پر فائز رہے۔ تنویر الیاس نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ حکومت میں سینئر وزیر کے طور پر نامزد ہونے کے باوجود تنویر الیاس دفتر آئے اور نہ ہی کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے۔ انہوں نے ایک گروپ بنا کر حکومت کے ناک میں دم کیے رکھا۔ علی امین گنڈا پوری اور عمران خاں نے بھی اصلاح احوال کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ سردار نیازی کو میدان میں اتار کر اکیلا تاک شکاریوں کے آگے ڈال دیا گیا۔ اپریل 2022 میں عمران خاں کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔ موقع غنیمت جان کر گنڈا پور اورتنویرالیاس نے پی ٹی آئی کے کچھ سینئر رہنماؤں کو قائل کیا کہ اگر قیوم نیازی کی جگہ تنویر الیاس کو وزیراعظم نہ بنایاگیا تو اپوزیشن جماعتیںتحریک عدم اعتماد پیش کرکے پی ٹی آئی مخالف حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔عمران خاں تازہ تازہ زخم خوردہ تھے۔ انہوں نے بغیر کسی تحقیق کے اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا گرین سگنل دے دیا۔ سردار تنویر الیاس وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ توقع تھی کہ وہ آزادکشمیر میں تیز رفتار ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرانے کے لیے غیر معمولی جوش اور جذبے سے کام کریں گے۔ چونکہ ان کا تعلق کارپوریٹ ورلڈ سے تھا لہٰذا وہ اس تجربے کو کام میں لا کر اس چھوٹے سے خطے میں معاشی انقلاب برپا کریں گے۔ مقتدرحلقوں کو امید تھی کہ سردار تنویر الیاس جنرل باجوہ کی کشمیر پالیسی کے تحت رفتہ رفتہ آزادکشیمیر کا موجودہ اسٹیٹیس ختم کرانے میں مدد گار ہوں گے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر کے تاریخی تعلق کو رفت گزشت کرانے میں معاونت کریں گے۔ اسی پس منظر میں انہوں نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں آزادکشمیر کی نمائندگی کی بات بھی کی لیکن سازگار عوامی رسپانس نہ ملا۔ بعدازاں انہیں ہدف دیا گیا کہ قوم پرست حلقوں کو انتظامی اور سیاسی طاقت کے ذریعے کچلیں۔ انہوں نے مظفرآباد میں ایک تقریب میں کہا کہ قوم پرست بھارت کے ایجنٹ ہیں اور میں مظفرآباد کو ان کے لیے تہاڑ جیل بنادوں گا۔ تہاڑ جیل دہلی میں بطل جیل مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی دی گئی تھی۔ اسی جیل میں جناب یاسین ملک اور سینکڑوں حریت پسند کشمیری اسیر ہیں۔ ان کی اس گفتگو پر اس قدر سخت عوامی ردعمل آیا کہ تنویر الیاس اور ان کے ہینڈلرز کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ باجوہ کی باقیادت چاہتی تھیں کہ آزادکشمیر کو حاصل آئنیی، مالی اور انتظامی اختیارات چھین لیے جائیں۔ تنویر الیاس نے اس سمت ابتدائی دنوں میں پیش رفت کرنا چاہی لیکن ابھی دو گام ہی چلے تھے کہ عوامی موڈ دیکھ کر یکدم پسپائی اختیار کرلی اور بااختیار آزادکشمیر کی نعرہ مستانہ بلند کردیا۔ مقتدرہ سے وعدے پورے نہ کرسکے تو رفتہ رفتہ ان کے اقتدار کی کشتی ہچکولے کھانے لگی۔متلون مزاجی، بری حکمرانی اورکارحکومت کو وقت نہ دے سکنے کی بدولت مقتدر قوتوں کے لیے وہ ایک بوجھ بن چکے تھے۔ چنانچہ ساحر لدھیانوی کے بقول فیصلہ کیا گیا کہ چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں سردر تنویر الیاس کے اقتدار کا ایک سال وفاقی حکومت، اپنی کابینہ کے ساتھیوں،سرکاری ملازمین اور پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداروں کے ساتھ لڑائیوں اور جھگڑوں کی نذر ہوگیا۔ عالم یہ تھا کہ وزیراعظم نے چار بار اپنا پرنسپل سیکرٹری بدلا۔ اسٹاف میں دوماہ سے زیادہ کسی کو برداشت نہ کر پاتے۔ (جاری ہے)