ن لیگ سہاروں کی تلاش میں مگن ہے۔ لاڈلے کا لاحقہ بھی ہٹایا نہ جاسکا لہذا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق دربدر گھومتے پھر رہی ہے، جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز سے شروع ہونے والا سلسلہ تھمنے کا نام لے رہا ہے نہ ن لیگ کو فتح کا قوی یقین ہوسکا۔ ایم کیو ایم کا وفد اچانک جاتی عمرہ پہنچا تھا تو سوالات کی طویل فہرست سامنے آ گئی تھی، پھر نواز شریف خود بلوچستان جا پہنچے اور باپ پارٹی کا جتھہ ان کا ہمنوا نکالا تو ملک میں لاڈلے کا تاثر حقیقتکا روپاختیار کرنے لگا۔ جی ڈی اے سے انتخابی اتحاد کی خبروں تک کوئیتعجب کا شکار نہ ہوا۔ جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ نے ن لیگ سیکرٹریٹ لاہور پر حاضری دی اور پنجاب، کے پی کے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات پر مہر ثبت کر دی یہ الگ بات ہے کہ ایوان صدر کا مقیم بننے کے آرزو مند مولانا فضل الرحمان کو انتخابات سود مند نظر نہیں ارہے۔ خیر نواز شریف سہاروں کی جستجو میں چوہدری شجاعت حسین کے آستانے پر جا پہنچے ۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولا طے پایا سو پایا۔ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ تک نوبت آن پہنچی ہے۔ اس ساری صورتحال پر راز بڑے سادہ انداز میں کھلتا ہے کہ ن لیگ کے پاس عوامی حمایت نہیں اور نہ ہی نواز شریف کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننا اتنا آسان ہے جس کا تاثر سادگی سے ان کو میسر آنے والے عدالتی ریلیف سے سامنے آ رہا ہے۔ ن لیگ کو آٹے دال کا بھاؤ سمجھ میں آنے لگا ہے، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے التواء کے سلسلہ میں الیکشن کیمشن کو بلوچستان سے 17 درخواستیں موصول ہوئیںتو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک شہری کی رٹ پٹیشن سماعت کیلئے نہ صرف مقرر ہوئی بلکہ اس پر چیف جسٹس آسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ قائم ہوا ۔ ن لیگ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے پاس تاوقت عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کا کوئی منشور نہیں، نعرہ نہیں، لہذا نواز شریف کے بیانات میں کوئی تال میل دکھائی نہیں دیتا، گزشتہ روز پارلیمانی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ کرپشن کا سب سے بڑا اسکینڈل اور ڈاکہ 190ملین پاؤنڈ کا کیس ہے، بند لفافہ لہراکر کہا گیا کہ اس پر دستخط اور منظوری دے دیں۔ نواز شریف نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آج 7 سال کے بعد جھوٹے الزامات پر انصاف مل رہا ہے۔آپ نے ظلم ڈھایا لیکن ازالہ کرتے کرتے کتنے سال لگ گئے۔ ن لیگی قائد کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ قوم کو آگاہ کیاجائے ، ہمارا مطالبہ یہ نہیں کہ ملک میں حکومت بنائیں ، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ قوم کو بتایاجائے اتننی مہنگائی کیوں ہوئی ہے، ہمیں اس ملک کی خیر اور بھلا چاہیے۔ نواز شریف کے ایسے بیانات پر عوام کان دھرنے کو تیار نہیں اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ن لیگی غبارے سے ہوا نکلتی چلی جا رہی ہے۔ نواز شریف کے پاس بھی بانی پی ٹی آئی کے خلاف گھسے پٹے الزامات کے سوا کوئی منشور نہیں تو اس میں کسی اور کا کیا نقصان ہے، دراصل 1985ء کا سیاسی ڈھانچہ زمین بوس ہوچکا ہے اور انھیں اس کا احساس و ادراک نہیں، اس لیے چوہدری شجاعت حسین کے پاس تک جاپہنچے اور یہ تک نہ سوچا کہ ن لیگ کے پاس ایک ہی کریڈٹ تھا کہ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا ۔ اب خود ان کے آستانے پر جا پہنچے، سیاسی جماعتوں کے زوال کے وقت ایسے ہی اقدامات نظر آتے ہیں جو اس وقت ن لیگ کے ہیں، اتنی پتلی حالت ہے کہ جہانگیر ترین کی شہبازشریف سے 45 منٹ کی ملاقات میں ن لیگ اور آئی پی پی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہوگیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے ن لیگ ،آئی پی پی رہنماؤں کی مزید ملاقاتیں ہوں گی، سیٹوں کا نمبر کیا ہو گا یہ اگلی ملاقاتوں میں پیپر ورک کے ساتھ فیصلہ ہوگا۔ اب بھی کیا سہاروں کی تلاش پر کسی کو شبہ ہے؟ کہاں سیاست کے بے تاج بادشاہ ہونے کے دعوے ہوتے تھے اور کہاں حالیہ حالت! نواز شریف تاحال پوچھتے ہیں کہ مہنگائی کیسے ہوئی عوام کو بتایا جائے، اگر وہ شہباز شریف سے پوچھ لیں تو ان کی بڑی مشکل آسان ہو جائیگی۔کم از کم اسحاق ڈار سے پوچھ لیں، مہنگائی تو اب بھی جاری ہے اور عوام اس کا ذمہ دار سابق پی ڈی ایم حکومت کو ٹھہراتی ہے۔ عوام کی حالت کا بھی جائزہ لیجئے: ادارہ شماریات کی ہفتہ وار مہنگائی کی رپورٹ کے مطابق 15 اشیاء مزید مہنگی ہوئیں، ملک میں رواں ہفتے مہنگائی 1.16 فیصد مزید بڑھی جبکہ سالانہ بنیاد پر اس کی شرح 42.68 فیصد پر پہنچ گئی حالانکہ چند روز قبل ہی وزارت خزانہ نے ماہانہ اقتصادی رپورٹ جاری کر دی تھی، جس میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ آئندہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی کی شرح کم ہو سکتی ہے، کیا یہ کمی ہے؟ عام آدمی درحقیقت مزید سہانے خواب، گلے شکوے اور سیاسی ڈرامے سننیکو تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ ن لیگ جس نے پنجاب میں شائد صرف پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن لڑنا ہے، باقی سب جماعتوں سے تو ڈیل ہوچکی ہے، یہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی انتخابی سیاست میں موجود نہ ہو لیکن پی ٹی آئی کو اگر کالعدم بھی قرار دیدیا، اس کی انتخابی حکمت ایسی ہوگی کہ یہ میدان انتخاب میں پوری آب و تاب سے موجود ہوگی، اس بات کا ن لیگ کو مکمل ادراک ہے لہذا سہاروں کی تلاش میں مگن ہونے باوجود تذبذب کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ گزشتہ ماہ میڈیا سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ پنجاب میں 120 سے 125 نشستوں پر کامیاب ہو کر سادہ اکثریت سے حکومت بنائیں گے، اب کہتے ہیں کہ پنجاب سے ہم 100 سے زائد سیٹیں جیتنے جا رہے ہیں، گویا امید ٹوٹتی جارہی ہے ۔ اس سارے سیاسی کھیل میں پیپلز پارٹی کی نورا کشتی کا تاحال ڈراپ سین نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر کے گڈ کوپ کا کردار سونپا گیا ہے، یہ بھی تماشا ہے، زیادہ دیر نہ چلے گا، نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن بھی گئے تو یہ پی ڈی ایم پارٹ ٹو حکومت سے زیادہ نہ ہوگی، فلاپ پراجیکٹ ہوگا، اللہ پاک پاکستان پر رحم کرے!