اسلام آباد(غلام نبی یوسف زئی)عدالت عظمی ٰنے سرکاری ملازمین کے مس کنڈکٹ کے معاملات سے متعلق پنجاب سروس ٹربیونل کے نرم فیصلوں پر سوالات اٹھاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ جب ایک دفعہ کسی سرکاری ملازم کی مس کنڈکٹ ثابت ہوجائے تو پھر وہ کسی نرمی کا مستحق نہیں ۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجا زلاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ضلع جھنگ میں270کینال سرکاری زمین پرائیویٹ شخص کے نام منتقل کرنے کے مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے نامزد ملزم پٹواری اللہ بخش کو بحال کرنے کاپنجاب سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم کردیا ہے ۔فیصلہ چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا جس میں سروس ٹربیونل ایکٹ کی سیکشن پانچ کے تحت ٹربیونل کو حاصل اختیارات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور قرار دیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کے حوالے سے سروس ٹربیونل کو حاصل اختیار صوابدیدی ہے اور نہ ہی لامحدود،جب کسی سرکاری ملازم کے خلاف مس کنڈکٹ ثابت ہوجائے تو انھیں ان کے جرم کے مطابق سزا دینا متعلقہ ادارے کا اختیار ہے اور اگر سروس ٹربیونل سزا میں کمی یا ختم کرے گا تو وہ ایسا کرنے کی قانونی وجوہات لکھنے کا پابند ہوگا ۔عدالت نے قرار دیا کہ اگر سرکاری ملازم کے مس کنڈکٹ سے قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچے تو اس سے جرم کی نوعیت تبدیل ہوسکتی ہے اور نہ شدت کم ہوسکتی ہے ۔عدالت نے سروس ٹربیونل کو اپنا اختیار احتیاط اور درست طریقے سے استعمال کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ سرکاری ملازمین کی مس کنڈکٹ کے حوالے سے ٹربیونل کا رویہ انتہائی نرم ہے ،یہاں تک کہ جن مقدمات میں ملازمین نے مس کنڈکٹ کی سنگین خلاف ورزیوں کا اعتراف بھی کیا ہو ،وہاں بھی متعلقہ اداروں کی طرف سے دی جانے والی سزائیں کم کی گئیں لیکن سزائیں کم کرنے کی کوئی قانونی وجہ نہیں دی گئی۔عدالت نے ملزم پٹواری کے وکیل کی اس دلیل کو مسترد کردیا ہے کہ مذکورہ 270کینال زمین واپس بحق سرکار واپس لے لی گئی تھی اور سرکاری خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ۔عدالت نے فیصلے کی نقل پنجاب حکومت اور سروس ٹربیونل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے ۔واضح رہے کہ ضلع جھنگ میں سرکاری زمین پرائیویٹ شخص کے نام پر منتقل کرنے کے الزام میں محکمہ ریونیو نے پٹواری اللہ بخش کو برطرف کیا تھا لیکن سروس ٹربیونل نے انھیں بحال کردیا تھا۔