وزیراعظم سعودی عرب اور ولی عہد سلطنت شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز ال سعود نے سعودی عرب میں ملک کی نئی ائیرلائن کا اجراء کردیا ہے جسے ’ریاض ائیر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اِس نئی ائیر لائن کا بنیادی مرکزریاض میں ’شاہ خالد انٹر نیشنل ائیرپورٹ‘ کو بنایا گیا ہے۔ اْمید کی جارہی ہے کہ یہ ائیرلائن مڈل ایسٹ میں سب سے زیادہ ریونیو پیدا کرے گی۔ ابتدائی منصوبہ کے مطابق وسطی ایشیا، ایشیا ، یورپ، جنوبی امریکہ، شمالی امریکی سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں سوسے زائد ائرپورٹس پر ’ریاض ائیر‘ لینڈ کرے گی۔ ولی عہد سلطنت کے بارہ مارچ کونئی ائیرلائن کے اجراکے اعلان کے ساتھ ہی ٹھیک اگلے دن ائیر لائن نے ائیر بس A320، بوئنگ 737اور بوئنگ 787کے تقریباََ 72ائرکرافٹ کی خریداری کی منظوری دی گئی ہے۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق اِس ریاض ائیرلائن کو ملک کی مشہور کمپنی ’پبلک انوسیٹمنٹ فنڈ‘ اپنی ملکیت میں لے گی جبکہ یاسر الرْومایان اِ س فنڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کریں گے اور متحدہ عرب امارت میں اِتحاد ائیرویز میں وسیع تجربہ رکھنے والے برطانوی کاروباری شخصیت ٹونی ڈوگلس اِ س نئی ائیر لائن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہونگے۔ ایک اندازے کے مطابق سعودی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بیس ارب ڈالرز کا سرمایہ اِس اکیلی ائیرلائن سے پیدا ہوگا جبکہ دو لاکھ ملازمتوں کے مواقع بالواسطہ اور بلاواسطہ مہیا ہونگے۔ ایوی ایشن ماہرین کا ماننا ہے کہ اِس نئی ریاض ائیرلائن کی مارکیٹ میں آمد سے متحدہ عر ب امارات ائیر لائن اور گلف ائیرلائن کے ساتھ کانٹے دار مقابلہ ہوگا جبکہ وسطی ایشیامیں ایوی ایشن کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق ’ریاض ائیرلائن‘ کا ترکش ائیر لائن کے ساتھ بھی مقابلے کی اْمید ہے۔ تاہم اْن کا ماننا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں ریاض ائیرلائن کے پاس مقامی سطح پر بہت کاروبار ہوگا لیکن آئندہ چند ماہ میں یہ ائیر لائن بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنالے گی اور سعودی عرب جیسے تیل کی پیداوار والے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں نان۔آئل معیشت کی طرف قدم بڑھانے میں یہ ائیر لائن انتہائی مفید ثابت ہوگی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جدہ میں پرنس سلطان ایوی ایشن اکیڈمی اور جدہ ہی میں ’ائیرگارڈ عریبیہ‘ جیسے فلائنگ سکول پر پائلٹ کی تربیت کی ذمہ داری بڑھ جائے گی کیونکہ نئی ائیرلائن کو انتہائی تربیت یافتہ پائلٹ درکار ہونگے۔ ائیر گارڈ عریبیہ سکول چونکہ امریکہ کے سب سے بڑے ائیروگارڈ فلائٹ ٹریننگ سنٹرز کے ساتھ باہمی اشتراک سے کام کررہا ہے اِس لئے اْمید کی جاسکتی ہے کہ یہ سکول اور پرنس سلطان ایوی ایشین اکیڈمی بہت زبردست پائلٹ فراہم کرنے میں کامیاب ہونگے۔نئی ائیر لائن کی کامیابی کے مواقع اِس لئے بھی زیادہ ہونگے کہ گزشتہ سال سعودی عرب کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ’آرامکو‘ اور خود سعودی حکومت نے ریاض ہی میں نئے تربیتی سکول ’طیاران(قومی ایوی ایشن اکیڈمی) کا اجراکیا تھا۔دیکھا جائے تو جب سے سعودی عرب میں ولی عہد سلطنت شہزادہ محمد بن سلمان نے بطور وزیراعظم ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے عالمی منظر نامے پر سعودی عرب کا چہرہ بدلنا شروع ہوگیا ہے۔ وہ ملک جسے صرف تیل کی پیداوار کے حوالے سے یاد کیا جاتا تھا وہ ملک دنیا بھر میں جدید ترین سہولیات سے آراستہ ملک بنتا جارہا ہے۔لوگ سعودی عرب میں زندگی بسرکرنا اور کاروبار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک جواں سال شہزادے اور ولی عہد کی سوچ کی وسعت کا اندازہ لگائیے کہ وہ سعودی عرب میں کئی نئے شہر بسانے جارہا ہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں کئی سلطنتوں کے شہنشاہ ِ مملکت اپنے پورے عہد ِ حکومت میں محض ایک یا شاید دو شہر بسایا کرتے تھے مگرابھی تو یہ شہزادہ ولی عہد سلطنت ہے اور اْن کی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے اور ایسے کارنامے ہیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ یقینی طور پر یہ ایک ایسا وژن ہے جو مثبت انداز میں سعودی شہریوں کے مفادِ عامہ اور خود سعودی سلطنت کے وسیع تر مفاد میں آگے بڑھ رہا ہے۔ راقم الحروف کے دوست جنابِ احمد مفتی کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں لوگ حیران کن طور پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد ِ سلطنت شاہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز کی تصاویر اپنے وائلٹ میں رکھتے ہیں۔ وہ سعودی عرب میں دیواروں، عمارتوں اور ائیرپورٹس پر لگے بڑے بڑے بینرز کو دیکھ کر عش عش کراْٹھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ولی عہد اْن کے اور سعودی عرب کے مفاد کے لئے کام کررہا ہے۔ ولی عہد نے یہ عہد کیا ہے کہ ملک کو جدید سعودی عرب بنانا ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ ملازمتوں کے لئے آئیں۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کی طرح صرف زبانی جمع خرچ والے وعدے نہیں تھے بلکہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے منہ سے جو الفاظ نکالے وہ حرف بہ حرف اْن پہ قائم رہے اور نئے شہروں کے قیام سے لے کر سعودی عرب کو نئی سَمت پہ گامزن کرنے جیسے کارناموں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کچھ عرصہ قبل ایک غلط العام تصور یہ بھی پایا جاتا تھا کہ سعودی عرب حکومت حرمین الشریفین میں حج اور عمرہ سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹکی ہے۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ جو لوگ سعود ی عرب کو قریب سے جانتے ہیں یا جنہوں نے شاہی خاندان کی ترجیحات کو قریب سے دیکھا ہے وہ بتاسکتے ہیں کہ آلِ سعود کو جب سے اللہ تعالیٰ نے خادم الحرمین الشریفین کے لقب سے نواز ا ہے تب سے لے کر آج تک سبھی بادشاہوں کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حرم شریف میں وسعت لائیں اور حج عمرہ سے حاصل ہونے والی آمدنی اْونٹ کے منہ میں زیرہ کی مانند ہوتی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے کارناموں اور ہمت و استقامت کو دیکھ کر جہاں ولی عہد کے صحت و سلامتی کی دعا دل سے نکلتی ہے وہیں پاکستان کے حکمرانوں کے لئے بھی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِنہیں بھی سعودی ولی عہد کی کم از کم پیروی کرنے والا بنائے اور یہ ملک و قوم کے لئے صحیح معنوں میں کوئی مفید کام کرسکیں۔