سفر کو وسیلہ ظفر یوں یہ تو نہیں کہا گیا کوئی نہ کوئی وجہ تو رہی ہوگی۔ ہمارے تارڑ صاحب کی ساری شہرت و ناموری اسی دور دراز کی مہم جوئی اور سفر ہی کی بدولت ہے۔ ہمیں یاد ہے ملک کے ایک مشہور ہفت روزے میں مدتوں پہلے، تارڑ صاحب کے سفر ناموں کے منظر عام پہ آنے سے بھی پہلے ایک صاحب کے جن کی تصویر کے ساتھ ان کے سفر نامے چھپنے شروع ہوئے تھے۔ تصویر میں وجیہہ و شکیل دکھتے تھے، نام بھی غالباً وجاہت علی تھا، اسم باسمہ تھے۔ یہ سفر نامہ پڑھنے والوں میں بہت مقبول ہوا، اتنا مقبول کہ ہفت روزے کی اشاعت کہیں سے کہیں جا پہنچی۔ یورپ کی سیر، حسینائوں سے سر راہ ملاقاتیں، مہم جوئی کے انوکھے واقعات جو قارئین نے نہ پہلے کبھی پڑھے تھے، نہ سنے تھے۔ بہت بعد میں محبّی الطاف حسن قریشی کے ہفت روزے کی ایک تفتیشی رپورٹ سے یہ رازکھلا کہ موصوف نے تو کبھی ملک سے قدم باہر نکالا ہی نہیں۔ گھر ہی میں بیٹھے بیٹھے سیاحوں کے لیے چھاپے گئے گائیڈ بک وغیرہ کی مدد سے تخیل ہی تخیل میں دنیا بھر کی خاک چھانتے پھرتے اور چونکہ تخیل تصورات کے جال بننے میں ایسا ماہر تھا کہ افسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رنجہ فرماتے تو بڑے بڑوں کے چراغ گل کردیتے۔ سو جب اس راز پر سے پردہ ہٹا کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا، تو ہم جو وجاہت صاحب کے سفر نامے کے اسیر تھے اور دو ایک بار سنجیدگی سے خود بھی جہانیاں جہاں گشت بننے کا دل ہی دل میں ارادہ باندھ چکے تھے، ہم پہ تو مایوسی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور سفر نامہ نگاروں پر سے ایسا اعتبار اٹھا کہ پھر ہم نے کسی سفر نامہ نگار کے سفرنامے کو ہاتھ لگانے سے توبہ کرلی۔ بہت بعد میں بیگم اختر ریاض الدین کے دو سفرنامے ’’دھنک پر قدم‘‘ اور ’’سات سمندر پار‘‘ کو ڈرتے ڈرتے پڑھنا شروع کیا تو سفرناموں پر سے اعتبار بحال ہوا کہ ہاں بھئی سفرنامے ہوں تو ایسے۔ پڑھنے والوں کو پڑھ کر نہ حیسنائوں کی للک ہو اور نہ سفر نامہ نگار کی وجاہت اور اپالو دیوتا جیسے مضبوط بازوئوں کی مچھلیاں اور ورزشی جسم کی خودبینی کہ لگے کہ لکھنے والا خود اپنا ہی عاشق ہے۔ بات سفر سے شروع ہوئی تھی اور اس لیے ہوئی تھی کہ ہم خیر سے دارالحکومت سے واپس آ گئے جس کا ظاہر پرسکون اور باطن میں یعنی اندرون خانہ جانے کیا کیا اور کیسے کیسے ہنگامے مچتے اور مچلتے رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت سڑکوں کی تعمیر اور ذرائع مواصلات کی ترقی میں شیر شاہ سوری کی شہرت رکھتی ہے۔ عدل وا نصاف میں بادشاہ سوری سے تو کیا مقابلہ کرے گا خود عدل اور تصور عدل ہی کو شرماتی ہے لیکن جب سے ہم نے موٹروے پر سفر کیا ہے اور میٹرو پر سوار ہوئے بلندی سے لاہور شہر کا نظارہ کرنے کا پرلطف تجربہ ہوا ہے، ہم مان گئے ہیں کہ نااہل ہونے والے وزیراعظم بے شک امین و صادق نہ ہوں لیکن آمدورفت کی دشواریوں کو آسان بنانے میں ان کا بے شک کوئی ثانی نہیں۔ دارالحکومت میں گرین ٹرین کی شہرت سنی، سوار ہونے کا موقع تو نہ مل سکا کہ وہاں کرم فرمائوں نے شہر میں گھومنے پھرنے کی سہولت فراہم کردی تھی۔ اصل میں عام آدمی ہو یا سیاست داں (کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم سیاست داں کو آدمی نہیں سمجھتے) اسے سموچا قبول کرنے کے عادی ہیں اور یہ سبق برسوں پہلے ہمیں خوش فکر شاعر افتخار عارف صاحب نے پڑھایا تھا۔ ہماری نالائقی کہ ہم وہ کچھ بھی کہہ دینے کی گستاخی کردیتے ہیں جسے صرف محسوس کرنا اور نظر انداز کردینا چاہیے اور جن سے قلبی تعلق ہو ان سے سچ بولنا تو اور بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کہ بندہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ تعلق ہو کر بھی تعلق نہ رہے تو کسی ایسی ہی بات پر خوش فکر شاعر نے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ برخوردار! آدمی کو سموچا قبول کیا کرو۔ تو اسی نصیحت کو تب سے ہم نے پلو میں باندھ رکھا ہے اور اسی اصول کی روشنی میں ہم نے اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی سموچا قبول کرنے پر خود کو آمادہ و تیار کرلیا ہے۔ اب عمران خان کتنی ہی بار بیاہ رچائیں، نوازشریف کتنی ہی دفعہ نااہل قرار پائیں، شیخ رشید کی کتنی ہی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوں، چوہدری شجاعت حسین کی سرگوشی نما گفتگو پلے پڑے یا نہ پڑے، ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈا کے شہری ہو کر جتنی بار چاہیں پاکستانی سیاست میں اپنی ٹانگ اڑائیں، ہم ان سب کو سموچا بول کرتے ہیں یعنی ان کی خوبیوں اور خامیوں کے ہم نے الگ الگ خانے بنا رکھے ہیں اور جب خوبی کی بات آتی ہے تو داد دینے میں چوکتے نہیں اور جب نشان دہی خرابی کی کرتی ہو تو اس پر ٹوکنے روکنے میں دیر نہیں کرتے۔ چونکہ یہ سیاست داں قوم کی مسیحائی کے بعد بھی دعوے دار ہوتے ہیں تو ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ کہیں نیم حکیم خطرہ جان نہ بن جائے۔ قوم تو پہلے ہی عطائی کو حکیمی سمجھتی ہے اور اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتی ہے جس کے سبب سے بیمار پڑتی ہے۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں گزشتہ ستر برسوں سے جاری ہے اور نامعلوم کب تک جاری رہے گا۔ بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک شخص نے جلی ہوئی روٹی کھالی، درد سے تڑپتا ہوا حکیم کے پاس بھاگا۔ بولا حکیم صاحب، حکیم صاحب درد سے حالت پتلی ہوئی جاتی ہے۔حکیم صاحب نے دریافت فرمایا ’’کھایا کیا تھا؟‘‘ جواب دیا: ’’جلی ہوئی روٹی‘‘۔ حکیم صاحب نے دوا تیار کر کے حوالے کی کہ اس کے دو قطرے صبح اور دو قطرے رات سوتے وقت دونوں آنکھوں میں ٹپکا لینا۔ مریض چلایا حکیم صاحب! پیٹ میں درد ہے اور دوا آنکھوں کے لیے دیتے ہو، کیسے حکیم ہو۔ حکیم صاحب بولے: ’’میاں! بصارت کی کمزوری ہی سے یہ مرض لاحق ہوا ہے۔ نظر ٹھیک ہوتی تو جلی ہوئی روٹی کھاتے ہی کیوں۔‘‘ تو سو باتوں کی بات یہی ہے کہ اگر قوم کی بصارت ٹھیک ہوتی تو ایسے لیڈر چنتی ہی کیوں؟ رہی بات بصیرت کی تو نہ قوم میں بصارت اور نہ اہل دانش میں بصیرت۔ پھر ملک کی جو بھی درگت بنے، کم ہے۔ لیکن اب کے دارالحکومت جا کر احساس ہوا کہ جس ملک کے حکمران ایسا خوبصورت، دلکش و دلربا دارالحکومت تعمیر کرسکتے ہیں، وہ سارے ملک کو بھی ایسا ہی پُرآسائش کرسکتے ہیں اگر کرنا چاہیں۔ ہمارے نوازشریف نے جیسے کیسے بھی مگر جو موٹروے بنائے ہیں، میٹرو کی جو سہولتیں دی ہیں، ان کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ اب کسی اور سیاست دان مثلاً عمران خان کو موقع دیا جائے۔ نوازشریف ترقی مواصلات کے شیرشاہ سوری تو عمران خان اپنی پارٹی کے نام پر کیا عجب عدل وانصاف کے شیر شاہ سوری خود کو ثابت کر دکھائیں۔ موقع دے کر دیکھنے میں کیا حرج ہے۔