میں ان دنوں اپنی کتاب '' فلسطین: انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں'' کام کر رہا ہوں۔ یہ خالصتا ایک قانونی مطالعہ ہے اور اس میں اس معاملے کو صرف انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں دیکھنا مقصود ہے۔ اس کتاب پر '' پس قانون'' سے بھی پہلے کام جاری تھا مگر یہ موخر ہوتی رہی۔غزہ کی تازہ صورت حال کے پیش نظر طے کیا کہ سب کچھ چھوڑ کر پہلے اس کتاب کو نبٹایا جائے چنانچہ اب یہ تکمیل کے قریب ہے۔ اگلے روز بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اسرائیلی اتنا سفاک کیوں ہے اور اس کے جنگی جرائم کی فکری بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ محض ایک ریاست کا انتظامی وحشی پن ہے یا اس کے پیچھے کوئی فکر بھی موجود ہے۔ اس سوال کی تلاش میں نکلا تو اسرائیل کے یہودی دانشور اسرائیل شحاک کی کتاب میرے ہاتھ لگی۔ اس میں ہونے والے انکشافات نے حیران کر دیا۔ اسرائیل شحاک ہبریو یونیورسٹی آف یروشلم کے پروفیسر تھے۔ یہ ان یہودیوں میں شامل تھے جو ہولوکاسٹ میں بچ گئے اور فلسطین لا کر آباد کر دیے گئے۔ ان کی کتاب '' جیوش ہسٹری، جیوش ریلیجن، دی ویٹ آف تھری تھاؤزنڈ ایئرز '' اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ ایڈورڈ سعید نے لکھا تھا جن کا اپنا تعلق فلسطین سے تھا۔ اسرائیل شحاک کی یہ ساری کتاب ہی توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے تاہم سر دست میں اس کے صرف دو اقتباسات یہاں لکھ رہا ہوں۔ وہ صفحہ 24 پر لکھتے ہیں کہ ہم یہودی بچوں کو یہ پڑھاتے ہیں کہ جب کبھی یہودی قبرستان کے پاس سے گزرو تو مرحومین کے لیے اچھے کلمات ادا کرو لیکن اگر تم کسی ایسے قبرستان کے پاس سے گزرو جو یہودی نہ ہو (مسلمان ہو) تو اچھے کلمات ادا نہ کرو بلکہ مرنے والوں کو ماں کی گالی دے کر گزرو۔ اسرائیل شحاک اپنی کتاب کے صفحہ 76 پر اسرائیل فوج کے سنٹرل ریجن کمانڈ کی جانب سے شائع ہونے والے پمفلٹ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس میں ملٹری کمانڈ کی طرف سے مغربی کنارے میں اپنی افواج کو ہدایات جا ری کی گئی تھیں۔ یہ حکم نامہ پڑھنے کی چیز ہے۔ اس میں لکھا ہے: '' جب ہماری افواج جنگ، تعاقب یا حملے کے دوران سویلینز کو سامنے پائیں اور یہ بات یقینی نہ ہو کہ یہ سویلین ہماری افواج کو نقصان پہنچانے کی کوئی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں، تب بھی ہلاکہ کے اصول کے تحت ان سویلینز کا قتل کیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں لازمی طور پر قتل کیا جانا چاہیے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں کبھی بھی ایک عرب پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک وہ ایک مہذب شخص ہونے کا تاثر دے تب بھی اسے قتل کر دیا جائے۔ جنگ کے دوران ہماری افواج کو اجازت ہے بلکہ صرف اجازت ہی نہیں انہیں یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اچھے شہریوں کو بھی قتل کر دیں۔ یعنی ان شہریں کو بھی جو بظاہر اچھے ہوں''۔ اپنی ایک اور کتاب Racism and the State of Israel کے صفحہ 152 پر اسرائیل شحاک لکھتے ہیں کہ اسرائیل کی سفاکی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں اس بات پر قائل کرنے کے لیے کہ اسرائیل سے پہلے فلسطین تو ایک ویران اور متروک علاقہ تھا، گاؤں کے گاؤں تباہ کر دیے گئے، کنویں برباد کر دیے گئے اور ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا، گھر مسمار کر دیے گئے تا کہ آبادی کا کوئی نشان نہ ملے، یہاں تک کہ قبرستان اور مقبرے بھی تباہ کر کے ان کا نشان مٹا دیا گیا۔ جو نومولود اہل دانش یہ کہہ رہے ہیں کہ غزہ سے کارروائی کے نتیجے میں اسرائیل کو ظلم کرنے کا موقع ملا یا وہ جید اہل دانش جن کے خیال میں فلسطینیوں کو سیاسی جدوجہد کرنی چاہیے یا پھر صبر سے کام لینا چاہیے ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ جب ایسا کچھ نہیں تھا تب اسرائیل کیوں ظلم کر رہا تھا۔ جب اسرائیل کے قیام کے پہلے ہی سال مسلمانوں کے 700 گاؤں جلاکر راکھ کر دیے گئے تھے ا ور 7 لاکھ سے زیادہ مسلمان بے گھر ہو گئے تھے تو اس وقت بھی کیا غزہ والوں نے کارروائی کی تھی؟ ایک اور اہم گواہی اسرائیلی مورخ بینی مورس کی ہے۔ یہ یہودی ہیں اور بن گوریان یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رہ چکے ہیں اور یونیورسٹی آف کیمرج سے پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ اپنی کتاب The birth of the Palestinian Refugee Problem Revisited میں انہوں نے وہ احوال بیان کر دیا ہے کہ مسلمانوں پر کیا بیتی ا ور ان کی زمینیں کیسے ہتھیائی گئیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے قیام کے ایک سال کے اندر اندر فلسطینیوںسے 400 گاؤں خالی کرائے گئے، وہاں قتل عام کیا گیا، بلڈوزروں سے ان کے گھر مسمار کر دیے گئے اور انہیں وہاں سے بھگا کر وہاں قبضہ کر لیا گیا ۔یہ کام اسرائیلی فوج نے بھی کیا اور ان کے ساتھ صہیونی تنظیم Haganah کے لوگ بھی اور پڑوس میں یہودی آبادکار بھی اس عمل میں شریک تھے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل اسرائیل کے قیام سے پہلے ہی جاری تھا اور اس میںصہیونیوں کو برطانوی معاونت بھی حاصل تھی اور یہ طے شدہ پالیسی تھی کہ عربوں کے گھر مسمار کر دینا ایک جائز عمل ہے۔ صہیونی دہشت گرد تنظیم Haganah کے بارے انہوں نے لکھا کہ اس کے پلان ڈی میں باقاعدہ یہ اصول درج تھا کہ عربوں کے گاؤں جلا کر راکھ کر دیے اور کچھ باقی نہ رہنے دیا جائے۔ collective destruction کو بطور پالیسی اختیار کیا گیا۔ اپریل کو حکم نامہ جاری کیا گیا کہ: To continue harassing and cleansing operations, we should blow up enemy bases. اس کی وضاحت کرتے ہوئے بینی مورس لکھتے ہیں کہ جن بیسز کا ذکر کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ تھا کہ گاؤں تباہ کر دیے جائیں۔ ان کے الفاظ ہیں: The bases referred to, of course, were villages. یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ بینی مورس نہ صرف اسرائیلی ہیں اور یہودی ہیں بلکہ وہ صہیونی بھی ہیں اور اس کا اعتراف وہ خود اسی کتاب میں کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہوں نے نظریاتی یا سیاسی بنیاد پر کچھ نہیں لکھا بلکہ وہ صرف یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہوا کیا تھا۔ چنانچہ جو ہوا وہ انہوں نے بیان کر دیا اور گمان ہے کہ ابھی بھی پورا بیان نہیں کیا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جارحیت اور وحشت اسرائیل کی پالیسی کا بنیادی اصول ہے ا ور مسلمانوں کو وہ اتنے حقوق دینے کو بھی تیار نہیں جتنے حقوق کوئی کسی جانور کو دیتا ہے۔ اسرائیل جس طرح غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، یہ تکلیف دہ تو ضرور ہے حیران کن نہیں ہے۔ کیونکہ اسرائیل نے یہ کام آج سے شروع نہیں کیا، یہ سلسلہ اس کے قیام کے وقت سے اسی طرح جاری ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں جس طرح اب لوگوں کو ان جنگی جرائم کے بارے میں علم ہو رہا ہے پہلے نہیں ہو پاتا تھا۔