عوام جانیں نہ جانیں۔خواص جانتے ہیں۔ اب جنگ کاطبل نہیں بجتا۔اب کوئی طیارے حملہ نہیں کرتے۔اب تیرتفنگ،توپ،گولے،میزائل اور بارڈرز کازمانہ گزرگیا۔اب عہدہے ففتھ جنریشن وار کا۔ ہائبرڈلڑائی کا۔سلامتی کے اس کانسپٹ میں فوج، اسلحہ اورجوان موجودتورہیں گے مگرجنگ کا انداز؟اسکی ایک ہلکی سی مثال 90-89 میں روس کا بکھر جاناکہ ان کے پاس اسلحہ اورفوج توتھی مگر فوڈ سکیورٹی کابم گرا اور بس۔ آج کے عہدمیں کرنسی کا اپنے مرتبے سے گر جانا۔ ملک کاقرضوںمیں ڈوب جانا۔لیڈرشپ کاناکام ہوجانا۔آبادی کااوقات سے بڑھ جانا۔گورننس میں چھیدہوجانا۔کرپشن کاملک کو مفلوج کر دینا۔ عصرکے تقاضوںکاجواب لیڈرشپ کے پاس نہ ہونا۔ آپ کی جغرافیائی لوکیشن آپ کا سرمایہ ہے یا کمزوری؟آپ کس خطے میں واقع ہیں؟ آپ کے پڑوسی ممالک آپ کوکس طرح دیکھتے ہیں؟ آپ کے پڑوس میں کہیں کوئی ملک اندر یا باہر سے عدم توازن کااسیرتونہیں؟آپ بطورریاست کتنی دور تک اور دیرتک دیکھ کراپنی ریاستی پالیسی بناتے ہیں؟ کیاآپکے ملک کی لیڈر شپ عصرِ حاضر کے سکیورٹی کے جدید تصورات کافہم رکھتی ہے؟ کیا اپوزیشن اورحکومت بنیادی مسائل اورانکے حل کیلئے ایک صفحے پر ہیں؟ اگرنہیں توپھران صفحوں کو دشمن کیسے دیکھتا ہے؟ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا سلامتی اور تحفظ کا کیا تصور اورمعیارہے؟ادائیگیوں کا توازن‘ افراطِ زر، قرض اورپھرعالمی ادارے کیا آپ کی بازو مروڑ سکتے ہیں؟اگرہاں تو کتنی؟ کیا بازو تونہیں توڑ دینگے؟ نیوزی لینڈکی ٹیم کاجانااسی جنگ کاایک چھوٹا سا ٹریلرہے۔افغانستان پرامریکہ اوراس کے اتحادی کیاکرنے جارہے ہیں لمبی بات ہے۔مگروہ جنگ جس کی طرف جنرل باجوہ بارباراشارہ کرتے ہیں یہ وہی جنگ ہے۔فوج ایک جدیدادارہ ہے۔ اگرمیں کہوں توپاکستان کاسب سے ماڈرن ادارہ ، تو پھرسوال اٹھتاہے کہ ملک کے باقی ادارے کیا سلامتی کودرپیش چیلنج کورسپانس کرنے کو تیار ہیں؟ جواب ہے۔نہیں۔کیوں؟ان کے پاس وہ ویژن‘ خیال،تصور،تربیت اورتیاری ہی نہیں۔ میں نے اپنی ہوش میں آج تک کسی سول حکومت کو چندایک مستثنیات کے علاوہ کبھی اس ویژن اور فوکس کے ساتھ کام کرتے نہیں دیکھاکہ آج جوکر رہے ہوں اس کے اثرات ایک سال، دوسال، تین سال اور چار سال کے بعد کیا ہونگے؟ کسی حکومت کے پاس تعلیم، آبادی، صنعت، اکانومی، زراعت اور مستقبل کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ پرانی بجٹ تقریریں، پرانے منسٹرز اور پرانی بیورو کریسی (زیادہ پرانی نہیں) آپ کوایک دوسرے کی فوٹو کاپیاں نظر آئیں گے۔ ہر مارشل لاء کے بعدبھی لگتاہے کہ شاید تقریر بدلنے والی ہے مگردن ہیں کہ بس ایک خاص کلاس کے ہی بدلتے ہیں۔ ملک میں دراڑیں افقی ہوں کہ عمودی نقصان معاشرے ہی کوہوتاہے۔آج کادشمن،ملک کادشمن بڑا باریک کام کرتاہے۔وہ آپ کے ملک میں عوام کے درمیان پیداشدہ بے چینی پرریسرچ کرتا ہے۔ معاشی اورمذہبی فالٹ لائنزکاتجزیہ کرتاہے۔ان کے مابین خلیجوں کووسیع کرنے کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ اپوزیشن اورحکومت کے درمیان اختلاف کو نازک حدوں سے آگے لے جاتاہے۔فوج ایک ادارہ ہے اس کی اپنی حدودوقیودہیں۔سول انتظامیہ کی نالائقیوں پرسیمنٹ تولگ سکتاہے۔ان کے اندرکی تاریخی کمزوریوں اورنااہلیاں ہی دشمن کا اصل ٹارگٹ ہیں۔ اس وقت امریکہ ، بھارت، برطانیہ اوران کے ساتھی ہمارے خلاف ایکٹو ہو چکے ہیں۔ ہم یہ کبھی سمجھ ہی نہیں پائیں گے کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کامحاذبھی ایک میدان جنگ ہے۔وہ جو تبصرہ اورتجزیہ کرتے ہیں ان کاہیرپھیرعوام میں مایوسی،ڈپریشن،نااُمیدی اورمستقبل کے اندیشے آہستہ آہستہ آپ کوکدھر لے جاتے ہیں؟آپ نے فلم اورڈرامہ کوکبھی اس قابل ہی نہیں سمجھاکہ آپ اسے دشمن کے خلاف اپنے بیانیے کی لڑائی میں کسی طرح ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اس جنگ میں نئی سپاہ کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ پچھلے دنوں بھارتی چینلز پرایک پاکستانی خاتون لکھاری کا ڈرامہ ’’دھوپ کی دیوار‘‘ آن ایئر ہوا۔ نام اس خاتون کاعمیرہ احمدہے۔کسی ادارے کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ اس لکھاری کی ویور شپ کو سرکاری سطح پرپاکستانی بیانیے کو موثر انداز میں پیش کرنے کیلئے استعمال کرتا۔پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے پاس اللہ کی رحمت سے یہ شعورکمرشل ازم کی دھند میں کھو گیا ہے۔ بھارت نے اپنے بیانیے کے مطابق عمیرہ احمد سے ایساڈرامہ لکھوایاجوہمارے سرکاری نقطہ نظر کے برعکس تھا۔محبت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اگرپاکستانی لڑکی اوربھارتی لڑکے کے درمیان محبت ہو جائے توملکوں کے محاذ اور سرحدیں بے معنی ہیں۔ آپ سوچیں اورغورکریں۔ یہی تصور تھا 1947سے پہلے گاندھی،نہرواورولبھ بھائی پٹیل کا۔ہم نے اپنے قومی موقف کومضبوط خیال کی بنیادپرکھڑاکرنے کے لیے بھارت کی ففتھ جنریشن وارکاکیاجواب دیا؟ کیا آئی ایس پی آر کی مددسے چندفلمیں مارکیٹ میں لے آناکافی ہوتا ہے؟ اتنی بڑی جنگ اور اتنا چھوٹا رسپانس؟ عوام کو پتہ ہی نہیں کہ دنیاکے طاقتورممالک مل جل کر انکے ملک کوکس جنگ میں کس طرح اٹیک کر رہے ہیں؟ ہماری سول حکومتیں کاش اتنا ویژن رکھتیں کہ شوبز اورانٹرٹینمنٹ انڈسٹری کواس ففتھ جنریشن وار، ہائبرڈجنگ کاموثرمیدان بنا کر دشمن کے دانت کھٹے کرسکتیں۔مگراربوں روپے کی اس انڈسٹری کوایسے پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور ایکٹر چلا رہے ہیں کہ معاشرے کامستقبل دیوار پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے۔ ضرورت ہے اس بات کی کہ حکومت ایک ٹیم بنائے،سیاست کاروں کی نہیں،بیوروکریٹس کی نہیں، ٹیکنو کریٹس کی جو فلم۔۔۔ڈرامہ،انٹرٹینمنٹ اور پروپیگنڈا کوسمجھتے ہوں۔ایک ہائی پروفائل تھنک ٹینک بنائیںجو بنیادی خطوط اورسمت طے کرے کہ قومی سلامتی کے ہدف کیاہیں؟اسے تعلیم سے لیکر میڈیا تک اورسوشل میڈیاسے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری تک contentکے حوالے سے ری ڈیزائن کریں۔ قومی سلامتی کے جدیدتصورات متعارف کرائے۔ مختلف ممالک کے ماڈلزکوسامنے رکھے اور اسے ذاتی کارنامہ بناکرپیش نہ کرے، اسے قومی فریضہ سمجھے۔تمام سٹیک ہولڈرزکوآن بورڈ رکھے۔ خود کو برھمن اوردوسروں کوشودرتصورنہ کرے۔پاکستان ایک سمت میں یکجانظرآئے تو تب ہم دشمنوں کی عائد کردہ ففتھ جنریشن وارسے نپٹ سکتے ہیں۔ بکھرا ہوا بے ترتیب لشکرلاکھوں میں ہو۔ اسے اٹیک کرنے والا تعداد میں کم ہونے کے باوجود اسے ہرا سکتا ہے۔ اختلافات کم کرنا پڑینگے، محاذآرائی بھی اوراربوں روپے کی ڈرامہ انڈسٹری کی سرجری بھی۔یہ کیابیچ رہی ہے؟کیوں بیچ رہی ہے؟اور کس قیمت پر؟یہ آنٹیاں، باجیاں ٹائپ لکھاری قوم کوکدھرلے جارہی ہیں؟اس وحشت کوحکومت اپنی طاقت بناسکتی ہے مگراسے نئے سرے سے سوچناہوگا۔رُ ک کراپنے لیے نہیں۔ملک کیلئے،قوم کیلئے۔اسے ایک سہولت بھی ہے کہ بقول اسکے وہ اوراسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں۔ قومی سلامتی کے جدیدتصورات کواسٹیبلشمنٹ سے زیادہ کون جانتاہے؟مگرحکومت سے ایسی کوئی توقع باندھنا؟ شایدحب الوطنی کے تقاضوںمیں بات ہوگئی۔