الٹے بانس بریلی کو ، پاکستانی برٹش نیشنل جو پاکستان میں کاروبار کررہا ہے، اُن کے خاندان کا بڑا حصہ برطانیہ میں اور وہ خود پاکستان میںٹیکسٹائل کے کاروبار سے منسلک ہیںاور برطانیہ کے ساتھ رشتہ استوار رکھنے کے لیے ’’یوکے‘‘نامی ہوزری بنارکھی ہے ، اس کی مصنوعات برطانیہ برآمد کی جاتی ہیں، انہی کے دفتر میں بیٹھ کر اکثر کالم لکھا کرتا ہوں، ان کا نام نامی ’’محمد اسلم ‘‘ ہے ۔ سمندری روڈ فیصل آباد پر اسلم ٹیکسٹائل اور یوکے ہوزری کے دفاتر ہیں ، ابھی ابھی یہاں پہنچ کر علیک سلیک ہوئی تو پوچھنے لگے،آج کیا موضوع اختیار کیاہے؟کہا ، بہت سے ہیں، بولے ، ان میں ایک بیرون ملک پاکستانیوں کا بھی ہوگا ۔جواب سننے سے پہلے پرجوش ، بولنے لگے، لوگوں کو اندازہ نہیں، عمران خان نے کیسا ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے۔ اگرچہ یہ غیرمتوقع نہیںتھا کیونکہ وہ عرصہ دراز سے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر اصرار کررہے تھے، اس سے پہلے نواز شریف بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں ووٹ کا حق دینے کی وکالت کیا کرتے تھے، مگر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس خاموشی کی وجہ عمران خان ہی تھا کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں میں عمران خان کی مقبولیت بے انتہا ہے،اگر کہوں صد فیصد تو شاید صحیح نہ ہوگا مگر یہ اسی فیصد سے کم نہیں، پہلی مرتبہ ووٹ کا حق ملنے کے بعد جس شوق سے لوگ ووٹ ڈالیں گے ،وہ شاید نوے فیصد سے بھی زیادہ ہوں،اس لیے کہ بیرون ملک پیپلز پارٹی کا حامی تو کوئی ہے نہیں، نواز شریف کے حامی جو کچھ بچ رہے وہ اس فیصلے پر عمران خان کے حق میں جنوں کو دیکھ کر خود ڈیپریشن میں ہوںگے۔ حاجی اسلم کی باتیں سن کر مجھے وہ دن یاد آگئے ہیں، جب اسلام آباد ڈی چوک میں عمران خان کا دھرنا جاری تھا اور ہم لوگ اپنی بھتیجی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے نیویارک میں تھے، مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ ، روؤف کلاسرا اور اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب بھی وہیں موجود تھے اور سابق مرکزی وزیر چوہدری عبدالغفور بھی تھے، جاوید ہاشمی صاحب کو بھی پہنچنا تھا مگر وہ دھرنے کی وجہ سے عمران خان کے اصرار پر رک گئے۔ ان کا رک جانا کسی کے لیے بھی سود مند نہ رہا، بطور خاص خود ہاشمی صاحب کے لیے ، اگر وہ پاکستان میں نہ ہوتے تو وہ سانحہ رونما نہ ہوتا،جس کی وجہ سے دونوں رہنماؤں میں شکر رنجی نے ان میں سے ایک کی سیاسی بساط لپٹ دی۔ خیر بات ہورہی تھی سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی۔ صادق آباد سے ممبرصوبائی اسمبلی اور شہباز شریف کی کابینہ میں صنعت کے وزیر چوہدری محمد شفیق بھی موجود تھے، چوہدری شفیق جو سکول کے زمانے سے راقم کے دوست ، ہم جماعت ،کالج میں بھی ساتھ ساتھ رہے، بعد میں ان کی شادی ہمارے گھرانے میں ہوئی ، چنانچہ وہ ہمارے بہنوئی بھی ہیں اور چھوٹے بھائی میاں مشتاق صاحب کے سمدی بھی ۔مشتاق صاحب کے گھر اور نیویارک کے دوسرے دوستوں کے ہاں ہر روز صحافیوں اور پاکستان سے آئے مہمانوں کے لیے تقریبات منعقد ہوا کرتی تھیں۔ بلامبالغہ ہر تقریب میں حاضری ڈیڑھ دو سو سے کم نہ ہوتی ، پاکستان میں دھرنے کا زمانہ ہر جگہ ہر کسی نے پاکستانی ٹی وی چینل چلا رکھے تھے، چوبیس گھنٹے دھرنے کی رونق ، خواتین بھی ڈرامے دیکھنا چھوڑ کر دھرنے کی تقاریر سے لطف اندوز ہوا کرتیں، حکومت جانے کی باتیں، عمران خان کے قصے، نواز شریف کی فضیحت ، شفیق صاحب مسلم لیگی حکومت میں وزیر تھے مگر وہاں کوئی حامی دکھائی نہ دیتا ، پریشان اور دوران گفتگو خود کو اکیلا پاتے، اپنی حکومت کی تعریف کریں ، کوئی خوبی بیان ہو، اس کا یارا نہ تھا۔چپ سادھے بیٹھے رہتے ، ایک دن مشتاق میاں نے کہا کہ شفیق صاحب کی بوریت اور سیاسی تنہائی کا کوئی حل نکالتے ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جو نیویارک میں مسلم لیگ کے ممتاز رہنما اور صدر تھے، جن کے پاس امریکہ کا ایک تاریخی ہال بھی تھا،جس میں انہوں نے ریسٹورنٹ بنا رکھا تھا ، اسی ہال میں صدر روز ویلٹ نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تھی۔ متعدد دفعہ نواز شریف او ر مسلم لیگ کے دوسرے رہنما وہاں تقاریر فرماچکے تھے، چنانچہ انہیں شفیق صاحب کے متعلق بتایا تو انہوں نے ان کے اعزاز میںایک تقریب کا انعقاد کیا۔ شام کو جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو مسلم لیگی رہنما ان کے بھائی دو ایک دوستوں اور ان کے افراد خانہ کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ البتہ انہوں نے کھانے کا بہترین اور وافر انتظام کررکھا تھا، ہمارے کچھ کہے بغیر خود ہی بولے ، میں نے مقامی لوگوں کو بلانے سے احتراز کیا ہے۔ ان دنوں امریکہ میں بھی عمران خان کا طوطی بولتا ہے، جہاں چند لوگ اکٹھے ہوں تو بس عمران ہی عمران ، کوئی ہماری سنتا ہے نہ کوئی لحاظ ۔ چنانچہ میں نے کسی کو بلایا ہی نہیں کہ اپنے مہمان کو پریشان کیوں کریں۔ گھر پہنچے تو شفیق صاحب نے کہا جو ہو، سو ہو۔پاکستان پہنچ کر (اگر اس وقت تک ہماری حکومت بچ رہی) تو میاں نواز شریف سے کہوں گا، کچھ بھی ہوجائے ، کسی صورت ، کسی قیمت پر سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ووٹ کا حق کبھی نہ دینا ، وہاں سے ہمارے لیے خیر کی کوئی خبر نہیں۔ باہر کے ممالک میںاوورسیز پاکستانیوں کی تین نسلیں بس رہی ہیں، وہ لوگ جسے میرے دوست محمد اسلم ،ان کے والد اور بھائی1960ء کے عشرے میں برطانیہ گئے، پھر یہ لوگ اپنے چھوٹے بھائیوں اوربیٹوں کو لے گئے،جو وہاں پلے بڑھے او رجوان ہوئے، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت عمران خان نے اسمبلی سے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے جو قرار داد پاس کی ہے، اس سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا، اس کے ذریعے اوورسیز پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے ساتھ مزید جڑ جائیں گے، اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد مجھے باہر ممالک سے کئی لوگوں کے ٹیلی فون آئے ، وہاں کے لوگوں میں بہت جوش وخروش پایا جاتا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے گھروں میں زیادہ تر پاکستانی چینل چلتے ہیں، وہ لوگ پاکستان سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں، عمران خان کے اس اقدام سے جہاں کئی فوائد حاصل ہونگے،وہاں ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہم ہر سال اپنی معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے چھ یا سوا چھ ارب ڈالر لیتے ہیں اور اس کے لیے ہم آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں،یہ رقم اب اوورسیز پاکستانی باہر سے بھیجیں گے ، اور سال ڈیڑھ سال میں ہماری جان آئی ایم ایف سے چھوٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستانیوں کا اپنے ملک میں آناجانا بہت ہوجائے گا۔ وہ اپنے ملک میں انویسٹ منٹ بھی کریںگے، اس وقت نوے لاکھ پاکستانی باہر کے ممالک میں رہائش پذیر ہیں، صرف ساڑھے گیارہ لاکھ پاکستانی برطانیہ میں مقیم ہیں، پانچ لاکھ پچیس ہزار امریکہ میں رہائش پذیر ہیں، ایک لاکھ کینیڈا ، ایک لاکھ فرانس،ایک لاکھ آسٹریلیااور پینتالیس یا سینتالیس لاکھ عرب ممالک میں رہتے ہیں، پاکستان کو زیادہ سپورٹ یورپ اور امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے جانب سے ملے گی ۔ اوورسیز پاکستانی خود عمران خان کو ووٹ ڈالنے کے ساتھ پاکستان میں اپنے رشتہ داروں کو عمران خان کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان میں بہت ساری خوبیاں موجود ہیں جس کا ادراک پاکستان میں عام آدمی کو نہ ہو مگر پڑھا لکھا طبقہ اس کو جانتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں کئی لوگ پاکستان میں صرف ووٹ ڈالنے کے لیے باہر کے ممالک سے آئے، اب جو قرار داد پاس ہوئی ہے ، اس سے اوورسیز پاکستان وہاں سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ووٹ ڈال سکیں گے ، یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونے والی پاکستانیوں کی تیسری نسل میں اپنائیت کا جذبہ بڑھے گا اور پاکستان کی اقتصادیات میں ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوگا۔ دو روز پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے ای میل کے ذریعے ’’مختا رنامہ‘‘ کا جو قانون بنایا ، اس سے سمندر پار پاکستانیوں کو بہت فائدہ ہوگا، پہلے مختارنامہ کے لیے ایک مہینہ وقت ضائع کرنا پڑتا تھا اور اس کے علاوہ پچاس ساٹھ ہزار روپے بھی لگ جاتے تھے، اس سے پاکستانیوں کو بہت مدد ملے گی اور وہ پاکستان کے معاملات میں دلچسپی لیں گے۔