تحریک انصاف نے ماضی کی طرح حالیہ قومی انتخاب بھی کرپشن کے بیانیے پر لڑا _عوام نے فارم 45 کے ذریعے ان کو پذیرائی بخشی مگر ’’ قومی مفاد‘‘ کے پیش نظر فارم 47 کے ذریعے مخصوص سیاستدانوں کو اسمبلیوں میں پہنچایا گیا۔عوام کے حقیقی مینڈیٹ سے محروم حکومت کے وجود میں آنے سے کبھی بھی عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو تے ۔ آج بھی کرپشن، دہشت گردی، مہنگائی، لاقانونیت، بھتہ خوری اور ناجائز منافع خوری اپنے عروج پر ہے۔ ان برائیوں سے نپٹنے کے لیے انتظامی ادارے اور عدالتیں موجود ہیں مگر حکمران طاقت اور اختیار کے ڈنڈے کے استعمال کے باوجود ان جرائم کی بیخ کنی کرنے میں ناکام ہیں۔ نگران دور حکومت میں آرمی چیف کی ذاتی دلچسپی سے سمگلنگ اور فارن کرنسی کی بلیک مارکیٹنگ کو کسی حد کنٹرول کیا گیا تھا مگر اب دوبارہ حالات پرانی ڈگر پر واپس آرہے ہیں ۔ اداروں کے اندر موجود کالی بھیڑوں کے مالی مفادات ان سٹیٹ کرائم کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں لہذا جرائم کی دنیا میں مجرموں کو ہلاک کیا جاتا ہے، سزائیں دی جاتی ہیں مگر انکی جگہ لینے والے سیکڑوں جانشین پیدا ہو جاتے ہیں ہماری ساری زندگی اسی امید پر گزر گئی کہ جمہوریت کی شمع روشن ہو گی ۔ مکمل طاقت، مکمل تباہی ۔ ایسے ماحول نے تخلیق کے بانچھ پن، ہنر کے اناڑی پن، صنعتی پسماندگی اور جامد سوچ و فکر ہماری نسلوں کو بانڈڈ لیبر میں تبدیل کر دیا ہے۔ سامراج ٹیکنالوجی اور معاشی بالادستی سے قوم کے انسانی اور مادی وسائل پر قابض ہو گیا ہے اس واردات میں ہمارے حکمرانوں اور مقامی سرمایہ داروں نے شراکت داری کر کے عوام کو ایسے بین الاقوامی معاہدوں میں پھنسا دیا ہے کہ جس سے ملک قرضوں کے انبار تلے دب گیاہے آج پاکستان کا سالانہ ریونیو کا حجم ہزار ارب ہے تو ڈیٹ سروسنگ 8 ہزار ارب پر جا پہنچی ہے۔ ان استعماری قرضوں سے کیسے جان چھوٹ سکتی ہے اس پر کوئی ماہرین معاشیات نہیں سوچتا ہے اور اگر ڈاکٹر قیصر بنگالی اور ڈاکٹر اشفاق احمد جیسے کوئی آؤٹ آف باکس حل پیش کریں تو حکمران طبقے کو کیسے منظور ہو سکتا ہے بس قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید مہنگے قرضے لیا جاتا ہے۔ اگر عمران خان اس کے خلاف بات کرے تو یہ غداری قرار دی جاتی ہے ۔ رونا یہ رویا جاتا ہے کہ ہم ڈیفالٹ ہو جائیں گے سری لنکا ڈیفالٹ ہوا اب دوسالوں میں اپنی معیشت کو سنبھال چکا ہے اور مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد پر آگئی ہے کیونکہ اب وہاں ملک کو لوٹنے والے حکمران بھاگ گئے ہیں ۔ جہاں صدر، وزیر اعظم اور تمام اعلی عہدوں پر ایک ہی خاندان کے افراد عرصہ دراز سے براجمان تھے ہم ابھی تک سماج کی قبائلی اور فیوڈل سطح کے اور سیاسی جوڑ توڑ کے محرکات سے اوپر نہیں اُٹھ سکے ہیں پاکستان کے عوام آغاز ہی میں جاگیرداروں کے سیاسی اور معاشی شکنجے میں پھنس گئے تھے جب تجارت اور صنعت کو فروغ دینے کے لیے صنعت کاروں کو مراعات دی گئیں تو انہوں نے ایوب خان کے دور میں بنیادی مداخل پر سبسڈی لے کر برآمدات سے کروڑوں ڈالرز کمائے مگر اس کا بہت تھوڑا حصہ پاکستان لائے اور نہ ہی دولت کی تطہیر نچلے طبقے تک ہونے دی۔ جس پر بھٹو نے ان اداروں کو نیشنلائز کر لیا ہمارے حکمرانوں اور ان کے حواری جاگیر داروں اور کاروباری طبقے نے عوام کی بھاری اکثریت کو غربت کے ایسے منحوس چکر میں پھنسا دیا ہے جن سے نکلنے کے لیے انہیں کوئی راستہ نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ آج عوام ایک طرف ساہوکاروں کی غلامی میں پھنسی ہوئی ہے تو دوسری طرف طاقت ور اشرافیہ ناہموار حالات میں عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کی بجائے ان کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر کچل رہی ہے عوام جس طرح جینے کے ہاتھوں مر رہے ہیں تو انہیں معیار زندگی کا کم از کم معیار برقرار رکھنے کے لیے کرپشن اور جرائم کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ جب طاقت ور اربوں لوٹ کر نیب کے ساتھ چند کڑور کی پلی بارگینگ کر لے تو عام آدمی بھی اپنی معاشی مجبوریوں کی آڑ لے کر قانون شکنی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گا جب کسی ملک میں دولت اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم بڑھتی چلی جائے گی تو ترقی کی بجائے زوال کی طرف سفر تیز سے تیز تر ہو تا ہے ہمارے ارد گرد وہ ممالک جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئے وہ اپنے ہنر اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر جمہوری سوشلزم سے آگلی منزل انٹرنیشنل دنیا کی سرحدوں کو عبور کر چکے ہیں ۔ برین پاور ٹیکنالوجی نے انکی نسلوں کو آفاقی شہری بنا دیا ہے اور وہ سائنس اور علم کی گلوبل دنیا کے باسی بن چکے ہیں کب وہ وقت پاکستان میں آئے گا جب ہم اپنا نظام تعلیم جدید دنیا کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے نوجوانوں کو اپنی محنت منظم انداز میں استعمال کرنے کے قابل بنا پائیں گے مگر ایسے ہنر مندوں کی فوج تیار کرنے کے لیے کسی مہاتیر، لی کوان اور نیلسن منڈیلا کی ضرورت ہے مگر موروثیت کی داعی فیملی بزنس سیاست دان اور ایکسٹنشن کے شوقین سرکاری ملازمین کے پاس نہ تو کوئی اخلاص ہے، نہ کوئی وژن اور نہ ہی کوئی سیاسی سوچ و فکر ہے۔ جو اس ملک کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے پر لے آئے اب آئی ایم ایف کا معاہدہ ہو گا تو میکرو اکنامکس کے اہداف کی ہیر پھیر سے ملک میں مہنگائی اور افراط زر میں کمی کی نوید سنا کر عوام کو میٹھی لوریاں دی جائیں گی اور اقتدار کے آخری سال میاں نواز شریف دوبارہ انقلابی لیڈر بن کر عوام کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی ڈگڈگی پر تماشا دیکھانے آجائیں گے ۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام سے ملک میں معاشی سمت کا درست تعین ہو جائے گا اور آڈیالہ کے قیدی کو آن بورڈ کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا ان سے عرض ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے