سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں گزشتہ دو ہفتوں سے دو متحارب گروہوں میں لڑائی ہورہی ہے۔ اَخباری اِطلاعات کے مطابق جس میں اب تک اَندازاً 512 افراد ہلاک اور تقریباً 4,200 زخمی ہو چکے ہیں۔ 15 اپریل سے شروع ہونے والی اِس لڑائی کی وجہ سے سوڈان کے مغربی دارفر کے علاقے میں دہائیوں پرانا تنازعہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے جہاں کم از کم 70 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ لڑائی سوڈان کی مسلح افواج (SAF) اور سوڈانی نیم فوجی دستے (RSF) کے مابین ہورہی ہے اور ان متحارب دھڑوں کی قیادت دو فوجی جرنیل عبدالفتاح البرہان، سوڈانی مسلح افواج (SAF) کے رہنما، اور محمد ہمدان دگالو، جو نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے سربراہ ہیں، کررہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا دونوں جرنیلوں نے مل کر فوجی بغاوت کی اور سوڈان کے اس وقت کے صدر عمر البشیر کو اِقتدار سے ہٹایا اور اَب دونوں جرنیلوں کے مابین اقتدار اور بالادستی کی جنگ نے سوڈان کو مسلح تصادم سے دوچار کردیا ہے جس سے خانہ جنگی کے خدشات میں اِضافہ ہوگیا ہے۔ سوڈان میں ہونے والے اِس مسلح تصادم نے عالمی اور علاقائی سطح پر خطرے کے گھنٹی بجادی ہے کیونکہ سوڈان بحیرہ احمر جیسی اہم سمندری گزرگاھ پر واقع ہے جبکہ سوڈان کی سرحدیں سات ممالک سے ملتی ہیں جِن میں سے پانچ ملکوں لیبیا، وسطی افریقی جمہوریہ(CAR)، جنوبی سوڈان، ایتھوپیا اور چاڈ میں پہلے ہی مسلح تصادم کا شکار ہیں۔ اِس کے علاوہ مصر اور اریٹیریا سوڈان کے دوسرے قریبی پڑوسی ہیں۔ سوڈان میں جاری لڑائی سے اب یہ تمام ممالک بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ سوڈان کے موجودہ بحران کے پیچھے داخلی محرکات کارفرما ہیں جن کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن دونوں فوجی جرنیلوں کے مابین پرانا اور گہرا تعلق رہا ہے۔ دونوں نے 2003 میں سوڈان کے مغربی علاقے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں دارفور کے باغیوں کے خلاف انسداد بغاوت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جنرل برہان نے دارفور میں سوڈانی فوج کی قیادت کرنے کے لیے میدان میں آئے۔ دوسری طرف حمیدتی بہت سے عرب ملیشیا میں سے ایک کا کمانڈر تھا، جسے اجتماعی طور پر جنجاوید کہا جاتا ہے، جسے حکومت نے دارفور میں بڑے پیمانے پر ہونے والی غیر عرب باغی گروپوں کو بے دردی سے ختم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ حمیدتی محض ایک ملیشیا لیڈر تھا جس نے بغاوت کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا اور فوج کی مدد کی جبکہ جنرل برہان ایک پیشہ ور سپاہی تھا۔ دارفر میں باغی گروہوں کو کچلنے کے بعد مسلح نیم فوجی دستوں کے سربراہ کی حیثیت سے ہمدتی کے قد کاٹھ اور اہمیت میں اِضافہ ہوگیا۔ سوڈان کی آزادی کے بعد بیشتر وقت فوج ملک پر حکومت کرتی رہی ہے۔ جب جنرل عمر بشیر کی فوجی حکومت کے خلاف عوام نے اِحتجاج کیا تو مہینوں کے عوامی احتجاج کے بعد آخر کار اپریل 2019 میں جنرل بشیر کا تختہ الٹنے کے لیے دونوں فوجی جرنیل عبدالفتاح البرہان اور محمد ہمدان حمیدتی اکٹھے ہوگئے۔ اسی سال کے آخر میں، انھوں نے مظاہرین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت ایک مشترکہ سویلین۔ ملٹری باڈی کے زیرِ نگرانی سویلین حکومت کی گئی جس کے سربراہ جنرل برہان تھے اور ہمدتی اس کے نائب تھے۔ یہ بندوبست اکتوبر 2021 تک دو سال جاری رہا – اِس کے بعد فوج نے ٹیک اوور کرتے ہوئے خود اقتدار سنبھال لیا اور جنرل برہان دوبارہ ریاست کے سربراہ اور ہمدتی دوبارہ اس کے نائب بن گئے۔ سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان موجودہ کشیدگی میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ RSF کو باقاعدہ مسلح افواج میں دوبارہ کیسے ضم کیا جانا چاہیے۔ سوڈانی سیاست پر ہمیشہ سے ایک اشرافیہ کا غلبہ رہا ہے جو بڑی حد تک خرطوم اور دریائے نیل کے آس پاس کے نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمدتی کا تعلق دارفور سے ہے، اور سوڈانی اشرافیہ اکثر اس کے اور اس کے سپاہیوں کے بارے میں طنزیہ الفاظ میں بات کرتے ہیں اور اِنہیں ریاست پر حکمرانی کے لیے نااہل سمجھتے ہیں۔ پچھلے دو یا تین سالوں میں، جنرل حمیدتی نے خود کو ایک قومی شخصیت اور دارفور اور جنوبی کورڈوفان جیسے پسماندہ علاقوں کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہاں تک کہ ان علاقوں کے باغی گروپوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ہے جنہیں پہلے تباہ کرنے کا کام اِسے سونپا گیا تھا۔ اِس تناظر میں سوڈان میں ہونے والی موجودہ لڑائی کے پیچھے اِقتدار اور بالادستی کے حصول کے ساتھ قبائلی عصبیت جیسے عناصر کا اہم کردار ہے۔ مزید برآں سوڈان کے دو بآاثر جرنیلوں کے مابین ہونیوالی اِقتدار کی رسہ کشی اور لڑائی کے پیچھے بیرونی عوامل بھی کارفرما ہیں جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے متحارب سوڈانی فوجی گروہوں کے ساتھ گٹھ جوڑ میں شامل ہوں اور ان جرنیلوں کی حمایت کررہے ہوں کیونکہ سوڈان جیسے ملکوں کی معیشت پر مراعات یافتہ مخصوص طبقے کی گرفت ہوتی ہے اور یہی اِیلیٹ کلاس ملک کے ریسورسز کو کنٹرول کرتی ہے۔ لوکل اِیلیٹ کلاس اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے بیرونی پارٹنر تلاش کرتی ہے جن کے ساتھ مل کر وہ اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر سوڈان میں زراعت کے شعبے میں خلیجی ریاستوں کو دریائے نیل سے متصل زرخیز اور نسبتاً کم استعمال شدہ زمین کے بہت بڑے قطعے میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دینا اِسی ضمرے میں آتا ہے۔ اِسی طرح معدنیات سمیت جب سونے کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ روس کے ویگنر گروپ کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ بڑے سودے ہوئے ہیں حالانکہ ویگنر گروپ پر سوڈان سے سونا اسمگل کرنے اور سوڈان کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے اور برا اثر و رسوخ پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ خطے میں روس کے مفادات بہت وسیع اور گہرے ہوگئے ہیں۔ مشرقی سوڈان کا مکمل ساحل بحیرہ احمر کی طرف نظر آتا ہے۔ کریملن، برسوں سے، پورٹ سوڈان میں ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے اس کے جنگی جہازوں کو دنیا کے مصروف ترین سمندری راستوں میں سے ایک تک رسائی اور اس پر اثر و رسوخ کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ ماسکو سوڈان کی فوجی حکومت، جس نے 2021 میں بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، کے ساتھ فوجی اڈے کے بارے میں ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب پہنچ گیا ہے- طاقت کی بنیاد پر چلنے والی عالمی سیاست کو ذہن میں رکھا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ اَمریکہ، روس اور چین جیسی بین الاقوامی قوتیں سوڈان میں معاشی اور سیاسی اِثرورسوخ قائم کرنے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے مخالف گروہوں کی پشت پناہی کریں یا ممکنہ طور پر اپنی فوجیں استعمال کریں سوائے اِس کے کہ یہ لڑائی جلد ختم ہوجائے۔