بانو کے منہ سے ’’کاف مین‘‘کا نام سن کر میں چونک گئی ۔ بانوخفیف سا مسکرائیں ۔ ’’تمھارے اس رد عمل کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ نام پہلے بھی سن چکی ہو ۔‘‘ ’’ جی ہاں بانو ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اس مہم پر آنے سے شاید ایک ہی دن پہلے مسٹر داراب نے نہ جانے کس بات پر کاف مین کا نا م لیا تھا ۔ پھر میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ یہودیوں نے فری میسن لاج پھر قائم کرلی ہے ۔‘‘ اس مرتبہ سونیا چونکی ۔ میں کہتی رہی ۔ ’’اور لاج اس بار بھی کراچی ہی میں کہیں ہے ۔ اسی حوالے سے کاف مین کا نام بھی بگ پرسن کے علم میں آیا ہے۔ ‘‘ ’’ہاں۔ ‘‘بانو نے کہا ۔ ’’اور اس بار یہ معاملہ بہت خفیہ رہا ہے جبکہ یہ لاج تحریک طالبان کانام سامنے آنے کے ساتھ ہی قائم ہوئی تھی۔ ‘‘ سونیا بولی ۔ ’’ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ فری میسن لاج ایوب خان کے زمانے میں ختم کردی گئی تھی اور جس عمارت میں یہ تھی ، وہاں اب ایک سرکاری دفتر ہے ۔‘‘ ’’ کچھ صحیح پڑھا تھا تم نے۔ ‘‘ بانو نے سر ہلایا ۔ ’’ایوب خاں کے عہد میں نہیں ، وہ بھٹو کے عہد میں ختم کی گئی تھی ۔ یہ انیس سو بہتر کی بات ہے ۔ کچھ عرصے بعد وہاں سندھ گورنمنٹ کا ایک دفتر قائم ہوگیا ۔‘‘ ’’بانو! ‘‘میںنے انھیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’ کہیں آپ ہی تو …‘‘ میں یکا یک چپ ہوگئی ۔ مجھے سونیا کا خیال آگیا تھا ورنہ میں کہتی۔ ’’کہیں آپ ہی تو ’’بگ پرسن‘‘ نہیں ؟ آئی ایس آئی کی سربراہ؟‘‘ ’’کہیں آپ ہی تو ؟ ‘‘ بانو میری طرف دیکھ کر ہنسیں ۔ ’’ کیا کہتے کہتے رک گئیں ؟ ‘‘ میری بہ جائے سونیا بول پڑی ۔ ’’شاید لیڈر یہ کہنا چاہتی تھیں کہ کہیں آپ ہی تو بگ پرسن کی معلومات کا ذریعہ نہیں ؟‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میری طرف معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تھا ۔ ’’ہاں ۔‘‘ میں نے اسی طرح بات نبھانی چاہی۔ ’’شاید میں کچھ اسی قسم کی بات کہنا چاہتی تھی۔‘‘ بانو نے سنجیدگی سے کہا ۔ ’’اس قسم کے خیالات کی بہ جائے تمہیں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرنا چاہے صدف ! ‘‘ ’’لائحہ عمل تو مرتب کیا نہیں جاسکتا۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ہم ایسی ہی مہم پر نکلے ہوئے ہیں کہ پہلے سے کچھ نہیں سوچا جاسکتا ۔ جس قسم کے حالات سامنے آئیںگے ، انھی کے مطابق قدم اٹھایا جاسکتا ہے ۔ پہلے سے تو ذہن میں صرف اتنا ہی رکھنا ہے کہ مرکز میں ہمارے داخلے کا علم طالبان کو نہ ہوسکے تو ہمارے لیے خطرات کم ہوں گے۔ ‘‘ سونیا بولی ۔ ’’اور یہ سوچ ہی لیا گیا ہے کہ ہم اندھیرا پھیلتے وقت ہی وہاں داخل ہوں گے ۔‘‘ ’’ہاں‘‘۔ میں نے کہا ۔ ’’رات کا وقت ہمیں بڑی حد تک محفوظ رکھے گا ۔ مجھے علی محمد سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان میں یہ بات بھی ہے کہ رات کے وقت وہاں کوئی بھی کسی قسم کا کام نہیں کرتا ۔ وہاں اتنا اندھیرا ہوتا ہے کہ بس سائے سے نظر آتے ہیں۔‘‘ ’’وہ لوگ جنریٹر کے ذریعے بجلی …‘‘ ’’نہیں۔‘‘ میں نے سونیا کی بات کاٹ دی ۔ ’’لائٹس کا استعمال وہ لوگ اس لئے نہیں کرتے کہ انھوں نے وادی پر جو مصنوعی چھت بنائی ہے ، اس کے سور اخوں سے روشنی باہر نکلتی ۔ پیٹرولنگ کرنے والے کسی طیارے کو کرنیں سی چمکتی نظر آئیں گی تو وہ اپنی بلندی کم کر کے جاننا چاہے گا کہ وہ کرنیں کس قسم کی ہیں ۔ اس طرح وہ مصنوعی چھت کے سوراخ دیکھ لے گا۔‘‘ سونیا نے سر ہلایا ۔ ’’میں نے اس پہلو سے غور ہی نہیں کیا تھا ، البتہ اب خیال آرہا ہے کہ وہاں دن میں بھی بہت کم روشنی ہوتی ہوگی ۔ مصنوعی چھت کے سوراخوں سے وہاں زیادہ روشنی تو نہیں پہنچتی ہوگی! ‘‘ ’’ دن میں وہ لوگ بجلی کا استعمال کرتے ہیں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’دن کے وقت کسی طیارے کو کرنیں یا جگنو سے چمکتے نظر نہیں آسکتے۔‘‘ ’’نہایت طاقت ور جنریٹر…‘‘ ’’ظاہر ہے۔‘‘ میں نے سونیاکی بات کاٹ دی ۔ میری اور سونیا کی ان باتوں کے دوران میں بانو ہماری طرف دیکھے بغیر کچھ سوچتی رہی تھیں ۔ میرے ذہن میں کوئی خیال آیا ۔ میں ان سے پوچھا ۔ ’’کیا ان لوگوں کی باتیں سن رہی ہیں ؟ ‘‘ ’’ہاں۔ ‘‘ بانو نے ایر فون ٹھیک کرتے ہوئے کہا ۔ ’’لیکن کوئی خاص بات علم میں نہیں آئی ۔ بس یہ معلوم ہوا ہے کہ میرے گھوڑے کا مقدمہ ،فیصل کردیا ہے ملافضل اللہ نے۔ ‘‘ ’’کیا فیصلہ کیا ہے؟ ‘‘ ’’دونوں طالبان میں سے جس کا ہاتھ گھوڑے پر پہلے پڑا تھا ، گھوڑا اسی کا ہوگیا۔‘‘ بانو نے جواب دیا۔ ’’البتہ اس پر ملا فضل اللہ کو خاصی تشویش ہے کہ مرکز کے قرب و جوار میں جاسوس موجود تھے اور اب اس سارے علاقے میں فوجی چوکیاں قائم کردی گئی ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’اس پر ان لوگوں کو تشویش تو ہونی چاہیے۔ ‘‘ ’’ہوں۔ ‘‘ بانو نے سنگلاخ زمین پر لیٹتے ہوئے کہا ۔ ’’ اب اتنا وقت آرام کر کے ہی گزارا جائے۔ ‘‘ ساڑھے سات بجنے میں اس وقت خاصی دیر تھی ۔ ’’ کیا کسی خطرے کا امکان نہیں ؟ ‘‘ سونیا نے بانو ہی سے پوچھا ۔ ’’مجھے خطرے کی گھنٹی سنائی دے جائے گی۔ ‘‘ بانو نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور آنکھیں بند کرلیں ۔ میں اور سونیا ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئیں ۔ مجھے دوسری یا تیسری بار محسوس ہوا کہ اس مہم کی لیڈر اب بانو بن چکی تھیں ۔ سونیا کو اب مجھے ’’لیڈر‘‘ نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ سونیا بھی اس وقت بڑی گہری نظر سے بانو کی طرف دیکھنے لگی تھی جن کے چہرے سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ محض آرام نہیں کررہی تھیں بلکہ سو گئی تھیں ۔ مجھے خیال آیا کہ اس موقع سے یہ فائدہ اٹھائوں کہ مسٹرداراب کو اب تک کے معاملات کی رپورٹ دے دوں ۔ مسٹر داراب نے سب کچھ سننے کے بعد اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی بہ جائے کہا ۔ ’’ تم نے اچھا کیا کہ مجھے اب تک کی رپورٹ دے دی ۔ اب بگ پرسن کا فون آئے گا تو میں انھیں حالات سے آگاہ کرسکوں گا ۔ اچھا …بیسٹ آف لک!‘‘ وہ نہ جانے کس ادھیڑ بن میں تھے کہ مجھ سے اس بارے میں زیادہ بات نہیں کی اور رابطہ منقطع کردیا ۔ آخر وہ وقت آیا جب شام کی ملگجی رنگت ، رات کی سیاہی کی طرف مائل ہوئی اور اسی وقت بانو نے آنکھیں کھولیں ۔ اب ہمیں مرکز کے داخلی راستے پر قدم رکھنا تھا ۔ اس راستے پر کوئی رکاوٹ آئی یا نہیں ؟ یہ کل کے روزنامہ 92میں پڑھیے !