بہ ظاہر درہ نظر آنے والی جگہ دراصل دو چٹانوں کے بیچ میں ایک دراڑ تھی اور اسی میں داخل ہوکر طالبان کے مرکز پر قدم رکھا جاسکتا تھا۔ اس دراڑ کی چوڑائی ایک فٹ سے زیادہ ہر گز نہیں ہوسکتی تھی۔ اس دراڑ میں داخل ہونے کے لیے آڑا ہونا ضروری تھا اور اس صورت میں بھی عورت کے جسم کا چٹان سے رگڑ کھانا لازمی تھا۔ مجھ سے اور سونیا سے پہلے بانو نے خود کو اس جوکھم میں ڈالا۔ ان کے بعد میں نے دائیں جانب رخ کرکے بایاں پیر دراڑ میں ڈالا اور اپنا جسم دراڑ میں لے گئی تو میرا سینہ بھی چٹان سے ٹکرایا اور پیٹھ بھی دوسری طرف کی چٹان سے مس ہوئی۔ ان دونوں چٹانوں کو آٹھ فٹ کی بلندی پر ایک چٹان نے ڈھک لیا تھا اس لیے دراڑ میں اتنی تاریکی تھی کہ میں خود سے صرف ایک فٹ دور بانو کو سائے کے مانند ہی دیکھ سکتی تھی۔ ’’سنبھل کے آنا صدف! ‘‘میں نے بانو کی آواز سنی۔ ’’یہاں دراڑ مسدود ہوئی ہے اور اس سے پہلے کھائی ہے جو نہ جانے کتنی گہری ہو۔‘‘ ’’اوہ! ‘‘میرے منہ سے نکلا۔’’ تو ہم غلط دراڑ میں داخل ہوگئے ہیں!‘‘ ’’شایدایسا ہی ہو،یہ بند تو ہے لیکن ایک طرف مڑا جاسکتا ہے۔ کھائی سے پہلے بائیں جانب تقریباً ایک فٹ کی جگہ ہے۔ میں اب اسی طرف مڑنے جارہی ہوں۔‘‘ ’’ایک فٹ! ‘‘میں کچھ پریشان ہوئی۔’’ توازن کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے بانو؟‘‘ ’’آسانی سے۔ ‘‘بانو نے جواب دیا۔’’ مڑ تے ہی دائیں جانب بھی ایک چٹان ہے، اس پر ہاتھ رکھ کر توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ سونیا کو بھی بتادو۔‘‘ اسی وقت سونیا کے بائیں پیر کا ٹخنہ میرے دائیں پیر سے ٹکرایا۔ وہ بھی دراڑ میں داخل ہورہی تھی میں نے اس کی آواز سنی۔’’ لیڈر، میں سمجھ گئی ہوں بانو کی بات۔‘‘ ’’علی محمد نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ راستہ اتنا خطرناک اور پے چیدہ ہے۔ ‘‘میں نے کہا۔ ’’میں اب مڑ چکی ہوں صدف! ‘‘بانو کی آواز پھر سنائی دی۔ اس وقت مجھے ان کا سایہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے اپنا قدم بائیں جانب بڑھایا اور رک کر بڑی احتیاط سے قدم مزید سرکایا تو مجھے وہاں کھائی کا احساس ہوگیا۔ اندھیرے میں وہ کھائی نظر نہیں آرہی تھی۔ بانو کو بھی دکھائی نہیں دی ہوگی، صرف محسوس کرلیا ہوگا۔ اب میں نے بائیں ہاتھ سے اس چٹان کو ٹٹولا جس سے رگڑ کھا کر میری پیٹھ میں خراشیں پڑچکی تھیں۔ اپنا سینہ حتیٰ الامکان بچانے کے لیے میں نے زیادہ زور پیچھے ہی کی چٹان پر ڈالا تھا۔ صرف بارہ چودہ انچ سرکنے سے ہی خراشیں پڑچکی تھیں جن میں جلن ہونے لگی تھی۔ ’’تمہیں پیچھے رکھ کرمیں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے سونیا! ‘‘میں نے کہا۔ ’’کیسی زیادتی لیڈر؟‘‘ ’’اب سامان تمہیں ہی گھسیٹنا ہوگا۔‘‘ ’’آپ فکر مند نہ ہوں لیڈر! ‘‘سونیا حوصلہ مند تھی۔ ہم تینوں نے اپنے سامان کے تھیلے دراڑ کے باہر ہی چھوڑ دیے تھے۔ ممکن نہیں تھا کہ سامان پیٹھ پر لاد کر دراڑ میں گھسا جاسکتا۔ وہ اپنے ساتھ رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس کی تدبیر بانو ہی نے سوچی تھی۔ تھیلوں میں سامان اس طرح سیٹ کیا تھا کہ تھیلوں کی چوڑائی، چٹان کی چوڑائی سے زیادہ نہ ہو۔ تینوں تھیلے ڈوریوں سے اس طرح باندھے تھے کہ جب انھیں گھسیٹا جائے تو وہ ایک قطار میں ہوں۔ آگے کے تھیلے سے جو ڈوری باندھی گئی تھی، اس کا دوسرا سرا سونیا کے ہاتھ میں تھا۔ وہی ان تھیلوں کو دراڑ میں گھسیٹتی۔ جب میں نے عقبی چٹان کو ٹٹولا تو مجھے اس کا وہ کونا مل گیا جہاں سے بائیں جانب مڑنا تھا۔ پیر ہی سے ٹٹول کر میں نے ایک فٹ چوڑی وہ جگہ بھی محسوس کرلی جس پر مڑنے کے بعد چلنا تھا۔ ’’سونیا بہت احتیاط سے۔ ‘‘میں نے مڑتے وقت کہا۔ اس وقت میں نے اپنے دونوں ہاتھ سامنے کی چٹان پر ٹکادیے تھے ورنہ ایک فٹ کی جگہ پر توازن قائم رکھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اب میں نے بانو کا سایہ دیکھا۔ وہ مجھ سے دو فٹ کی دوری پر تھیں۔ اس جگہ وہ چٹان بھی نہیں تھی جس پر میں نے دونوں ہاتھ جما رکھے تھے۔ ’’جانے پہچانے ہوئے لوگوں کے لیے یہ کوئی خطرناک راستہ نہیں ہے صدف! ‘‘بانو نے دھیمی آواز میں کہا۔’’ دراڑ کے باہر پہرہ دینے والے طالبان بڑی آسانی سے آتے جاتے ہوں گے۔‘‘ ’’ہاں بانو! ‘‘میں نے کہا۔’’ کوئی انجان ہی احتیاط نہ برتنے کے باعث اس کھائی میں گر سکتا ہے۔ ‘‘پھر میں نے بانو ہی کی طرح مدھم آواز میں سونیا کو پکارا۔ جواب میں سونیا نے کہا۔’’ میں نے کنارا ٹٹول لیا ہے لیڈر، لیکن… ‘‘اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ میں نے اس کے لہجے میں فکر مندی محسوس کی۔ ’’لیکن کیا؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔ ’’مڑتے وقت سامان کے تھیلوں کو سنبھالنے کی کوشش کھائی میں گرا سکتی ہے۔‘‘ ’’جہنم میں جائیں تھیلے۔ ‘‘میں نے کہا۔’’ تم بس خود کو سنبھال کر آئو اس طرف۔ تھیلے نہیں آسکتے تو انہیں کھائی میں گرا ہی دو۔ انھیں دراڑ میں چھوڑنا تو غلط ہوگا۔ جو طالبان اب ڈیوٹی دینے ادھر آئیں گے ، وہ ان تھیلوں کو دیکھ کر بہت کچھ سوچ سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ اسی وقت میں نے بانو کی آواز سنی۔’’ تم سونیا کو صحیح ہدایت کررہی ہو،تھیلے کھائی میں گرادینا ہی مناسب ہے۔‘‘ ’’جی ہاں بانو!‘‘ ’’کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہیں رہے گا۔ ‘‘سونیا بولی۔ ’’دیکھا جائے گا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں اب مڑ رہی ہوں۔‘‘ ’’میں نے اس کا سایہ دیکھا۔‘‘ ’’ہاں، دیکھ رہی ہوں۔ ‘‘میں نے کہا۔ وہ میری طرف مڑگئی۔’’ اب میں تھیلوں کی ڈوری گھیسٹ رہی ہوں۔‘‘ ’’جیسے ہی تھیلے گریں، ڈوری چھوڑ دینا۔‘‘ ’’چھوڑ دی لیڈر!‘‘ ’’گڈ!‘‘ اسی وقت کسی قدر گہرائی سے تھیلوں کے گرنے کی آواز آئی۔ ’’صدف جہاں ہو، وہیں رکی رہو۔‘‘بانو کی اتنی مدھم سرگوشی سنائی دی جیسے انھیں ڈر ہو کہ ان کی آواز کوئی اور نہ سن لے! اور پھر بانو کا سایہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔نہ جانے انھوں نے رک جانے کی ہدایت کیوں کی تھی ۔ہدایت بھی نہیں تاکید تھی ان کے لہجے میں! بانو کے غائب ہونے کا سبب؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!