میں رینگتی اور آگے بڑھتی ہوئی ماحول پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی ۔ جو منظر میں نے دراڑ سے نکل کر دیکھا تھا ، اس میں بس اتنا فرق آیا تھا کہ متحرک سائے اور ٹارچ کی روشنیاں اب نہیں تھیں ۔ ہر طرف سناٹا تھا۔وہاں کتے نہیں تھے جن کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیتیں ۔یہ سب باتیں میرے حق میں تھیں ۔دیکھ لیے جانے کا خطرہ بہ ظاہر تو نہیں تھا ۔ جو مکانات وہاں تھے، ان میں سے بیشتر کی کھڑکیاں روشن نظر آرہی تھیں ۔ان روشنیوں کا مدھم سا عکس کھڑکیوں سے باہر بھی آرہا تھا۔میں نے خیال رکھا کہ اس عکس سے بھی بچتی رہوں ۔ میںبالکل سیدھ میں آگے بڑھ رہی تھی ۔ اگر میں دائیں بائیں مڑتی رہتی تو یہ ممکن تھا کہ واپسی پر راستہ بھٹک جاتی اور اس مکان تک نہ پہنچ پاتی جہاں ’’ ٹھکانا ‘‘ بنایا گیا تھا ۔ جب میں رینگتے رینگتے تھک گئی تو پھر رکنا اور تھوڑا سا سستانا ضروری تھا ۔اس وقت تک میں تین چار مکان دیکھ چکی تھی لیکن کوئی خاص بات میرے علم میں نہیں آئی تھی ۔ رک کر میں نے ایک جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور اس میں سے ایک چیونگم نکال کر منہ میں ڈال لی تاکہ خشک ہوتے ہوئے گلے کو قدرے سکون مل جائے ۔ پھر میں نے دوبارہ رینگنا شروع کیا ہی تھا کہ کسی کی مدھم آواز سن کر ٹھٹھک گئی اور اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگی کہ آواز کس طرف سے آرہی تھی ۔ یہ اندازہ لگانے کے بعد میں نے اسی طرف بڑھنا شروع کیا جدھر سے آواز آرہی تھی ۔ اس عمل کے لیے مجھے کسی حد تک دائیں جانب مڑنا پڑا تھا اور یہ دھیان رکھنا بھی ضروری تھا کہ میں اس سمت میں کتنا بڑھتی ہوں! جب واپس لوٹتی تو اسی طرح لوٹتی۔ ہمہ وقت یہ خیال رکھنا ضروری تھا۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھتی رہی ، وہ آواز بہ تدریج واضح طور پر سنائی دیتی رہی اور آخر جب وہ صاف طور پر سنائی دینے لگی تو میں نے جانا کہ کوئی عربی بول رہا تھا اور مسلسل بولے جارہا تھا ۔ آواز کسی قدر نسوانی سی تھی۔ وہ کوئی نو عمر لڑکا بھی ہوسکتا ہے ۔ میں نے سوچا ، اور اگر وہ کوئی لڑکی یا عورت ہی ہے تو یہ تعجب کی بات ہوتی ۔ میرے خیال کے مطابق طالبان کے اس مرکز میں کوئی عورت یا لڑکی نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ رینگتے ہوئے میں آخر اس مکان تک پہنچ ہی گئی جس کی ایک کھڑکی میں روشنی تھی اور آواز وہیں سے آرہی تھی ۔ میں نے یہ بھی جان لیا تھا کہ قرآن شریف پڑھاجا رہا تھا ۔ ’’ کم بخت۔‘‘ میں نے دل میں کہا۔’’ یہ انسان نما درندے قرآن بھی بڑھتے ہیں!‘‘ میں فوری طور پر وہاں سے آگے نہیں بڑھی ۔ تجسس ہوگیا تھا کہ وہ کوئی عورت ہے یا کم عمر لڑکا ؟ یہ جاننے کے لیے میں کھڑی ہوئی اور کھڑکی سے اندر جھانکنے کا خطرہ مول لیا ۔خطرہ یہ تھا کہ وہاں اگر قرآن پڑھنے والے یا پڑھنے والی کے علاوہ بھی کوئی ہوتا اور اس کی نظر کھڑکی کی طرف ہوتی یا اتفاقاً کھڑکی کی طرف ہوجاتی تو وہ مجھے دیکھ لیتا ۔ میں اتنی متجسس ہوگئی تھی کہ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑکی میں جھانکا ۔ احتیاط بس یہ کی تھی کہ صرف ایک آنکھ سے کمرے کا منظر دیکھا تھا ۔ دیکھتے ہی مجھے اطمینان ہوگیا کہ مجھے نہیں دیکھا جاسکے گا ۔ قرآن پڑھنے والے کے علاوہ جو دو طالبان تھے ، ان کی پشت کھڑکی کی طرف تھی وہ ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ قرآن پڑھنے والے کا چہرہ کھڑکی کی طرف تھا ۔ اگر وہ نظریں اٹھاتا تو مجھے دیکھ لیتا ۔اس وقت تو وہ رحل پر رکھے قرآن شریف پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔وہ نو عمر لڑکا ہی تھا ۔ چار پائی پر بیٹھے ہوئے طالبان بہت دھیمی آواز میں باتیں کررہے تھے۔ میں بس اتنا سمجھ سکی کہ وہ پشتو ہی بول رہے تھے ۔ اسے میں اتفاق ہی کہوں گی کہ اب تک صرف پشتو بولنے والوں سے سامنا ہوتا رہا تھا حالانکہ یہ بات اب عام طور پر جانی جاچکی تھی کہ دوسری زبانیں بولنے والے بھی اپنے اپنے ملکوں سے آکر اس وحشیانہ تحریک کا حصہ بن چکے تھے ۔ چار پائی پر بیٹھے ہوئے دونوں طالبان میں سے ایک اٹھا اور اس لڑکے کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔’’ اب تمہیں اتنا حصہ یاد ہوچکا ہوگا ۔ تین دن سے بس یہی آیات دہراتے رہے رہو ۔ اس کا ترجمہ بھی تمہارے سامنے ہے لیکن میں وہ سب کچھ تمہیں اچھی طرح سمجھا بھی دوں گا ۔‘‘ طالب نے یہ جملے اردو میں کہے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لڑکا پشتو نہیں ، اردو جانتا تھا ۔ جس وقت طالب، لڑکے کی طرف جارہا تھا ، لڑکے کی نظریں قرآن شریف سے ضرور اٹھی ہوں گی لیکن وہ مجھے اس لیے نہیں دیکھ سکا ہوگا کہ طالب میرے اور لڑکے کے درمیان آگیا تھا ۔ طالب جب اس لڑکے کے قریب جابیٹھتا تو اس کی نظر کھڑکی کی طرف بھی اٹھ سکتی تھی لیکن اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی مجھے وہاں جھانکنے کی مزید ضرورت نہیں تھی، میں بیٹھ گئی اور پھر رینگنے کی پوزیشن میں بھی آگئی ۔ میں نے سمجھ لیا تھا کہ اردو بولنے والے اس لڑکے کو چار پانچ سال پہلے اغوا کیا گیا ہوگا ۔ اب وہ بارہ تیرہ سال کا ہوچکا تھا ۔ اس عرصے میں طالبان نے اسے اس ماحول کا عادی بنادیا ہوگا ۔ اس کے بعد ہی قرآن پڑھانا شروع کیا گیا ہوگا ۔ اس وقت اس نے جو کچھ پڑھا تھا ، اب اسے اس کا غلط ترجمہ سمجھایا جائے گا ۔کچھ ایسی باتیں بتائی جائیں گی کہ وہ طالبان کو سچا مسلمان اور دوسروں کو کافر سمجھنے لگے ، لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ جب ترجمہ لڑکے کے سامنے تھا تو وہ اس کے بر خلاف باتیں کیسے مان لے گا۔ بس یہی ممکن تھا کہ لڑکا اردو بولنا تو جانتا ہو لیکن اسے اردو پڑھنا نہ آتی ہو ۔ ان خیالات کے ساتھ میں رینگتی رہی ۔ میں نے واپس لوٹنے کی بہ جائے اسی سمت میں آگے بڑھنا شروع کیا تھا ۔ مجھے بانو اور سونیا کا خیال بھی تھا ۔وہ نہ جانے کہاں ہوں! ان کے مشاہدے میں بھی کچھ آیا ہوگا یا نہیں ؟ اس قسم کے سوالات بھی میرے دماغ میں چکر ارہے تھے ۔ اس سمت میں بھی آگے بڑھتے ہوئے میں کئی مکانوں کے قریب سے گزری ۔سبھی مکانات کی دیواروں پر پلاستر تو کیا گیا تھا لیکن رنگ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی ۔ دو جگہ مجھے ٹارچ کی روشنی کے ساتھ چند طالبان کے سائے بھی نظر آئے تھے اور جب بھی نظر آئے تھے ، میں اپنی جگہ ساکت رہ گئی تھی۔خطرے سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ خفیف سی آواز بھی نہ ہو ۔ ناہموار جگہ پر رینگنا آسان نہیں ہوتا لیکن ایس آئی ایس میں شامل ہونے سے پہلے میری جو تربیت ہوئی تھی اس میں یہ بھی شامل تھا کہ ناہموار جگہ پر تاریکی میں رینگتے ہوئے کیا احتیاط کرنی پڑتی ہے ۔ تیسری بارپھر ایسا ہوا کہ مجھے ساکت ہوجانا پڑا ۔ جس وقت میں اس مکان کے سامنے سے گزرنے والی تھی ، اسی وقت دو طالبان وہاں سے نکل کر میری مخالف سمت میں بڑھتے چلے گئے تھے ۔ وہ آپس میں باتیں کرتے جارہے تھے ۔ میں نے اس مہم میں پہلی مرتبہ ایک ایسی زبان سنی جس سے میں ناواقف تھی ۔ ان کی باتوں کے صرف ایک لفظ نے مجھے چونکا دیا ۔ وہ لفظ تھا ’’ کاف مین‘‘ اور یہ لفظ سن کر میرا دل دھڑک اٹھا تھا اور دماغ میں یہ سوال کلبلا یا تھا کہ کیا یہ مکان ہی کاف مین کی لیبارٹری ہے ؟ کیا وہ کاف مین کی لیبارٹری ہی تھی ؟ کل کے روزنامہ 92 میں پڑھیے!