میں اور سونیا دبے قدموں لپک کر اس کمرے کے دروازے کے دائیں بائیں دیوار سے چپک گئیں جس کمرے سے کسی کے گنگنانے کی آواز آرہی تھی اور وہ تحریک طالبان ہی کا کوئی آدمی ہوسکتا تھا ۔ کمرے میں جہاں میں اور سونیا تھے ، وہاںاس آدمی کے آنے کا امکان نہیں تھا ۔کمرے کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ ادھر آتا ہی نہیں ہوگا لیکن احتیاط ضروری تھی ۔ اگر وہ کمرے میں آتا تو بے خبری میں ہمارے ہاتھوں بے بس ہوجاتا یا ہلاکت اس کا مقدر بنتی ۔ ہلکی سی ’’ ٹچ ‘‘ کی آواز سنائی دی ۔ اس نے سوئچ آن کیا تھا ۔ اس کا اندازہ مجھے اس سے بھی ہوا کہ دروازے اور فرش کے درمیان جو درز تھی ، اس میں روشنی نظر آنے لگی تھی ۔ گنگنانے کی آواز آنی بند ہوئی اور پھر اس کی بڑبڑاہٹ سنائی دی ۔ ’’ یہ بھی سہی ۔‘‘ اس نے خود کلامی کے انداز میں نہ جانے کس بات پر تبصرہ کیا تھا ! پھر ایسی آواز سنائی دی جیسے وہ جھٹکے سے بستر پر بیٹھا ہو ۔میرا اندازہ یہی تھا ۔ اس طرح کوئی اس وقت بیٹھتا ہے جب اس پر کسی قسم کی جھنجھلاہٹ طاری ہو ۔ اس کی بڑبڑاہٹ بھی میرے ذہن میں تھی اس لیے قیاس کیا جاسکتا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی بات ہوئی تھی جو اس کے لیے نا خوش گوار ہو ۔ میں دم سادھے دیوار سے چپکی رہی ۔ یہی حال سونیا کا تھا ۔ میرے اندازے کے مطابق دس بارہ منٹ اسی حالت میں گزر گئے ۔ کوئی اور آواز نہیں سنائی دی ۔ میں نے آہستگی سے حرکت میں آکر سونیا کا ہاتھ پکڑا اور دبے قدموں کا ٹھ کباڑ کی طرف بڑھی ۔ کاٹھ کباڑ کے پیچھے اتنی جگہ تھی کہ وہاں چھپا بھی جاسکتا تھا ۔ کھڑکی بھی وہاں سے بالکل قریب تھی ۔ ’’ شاید وہ سونے کے لیے لیٹ گیا ۔‘‘ میں نے بہت ہی مدھم آواز میں کہا ۔ ’’ وہ طالب ہی ہوگا ۔‘‘ ’’ ظاہر ہے۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ اس سارے علاقے میں طالبان ہی ہیں ۔‘‘ اسی وقت میں اور سونیا چونکے ۔ کھڑکی اندر کی طرف کھلی تھی اور وہیں سے ٹارچ کی روشنی اندر آئی تھی ۔ کھڑکی کھولنے والی بانو ہی تھیں ۔ انہوں نے ٹارچ کی روشنی اپنے چہرے پر ڈالی ۔ گویا اس طرح خود کو ہمیں دکھایا ۔ پھر ٹارچ بجھا کر کھڑکی سے کمرے میں آ گئیں۔ خود ہی کھڑکی کے پٹ بند کئے ۔ ’’ بس خدشہ تھا مجھے کہ اس طالب کی وجہ سے کوئی گڑ بڑ نہ ہوگئی ہو !‘‘وہ بولیں۔ ’’ وہ اس کمرے میں آیا ہی نہیں کہ گڑ بڑ ہوتی ۔ ‘‘میں نے بتایا ۔ ’’ پہلے کمرے میں تو ہوسکتی تھی ۔ ‘‘ بانو نے کہا۔’’ یہ اچھا ہوا کہ تم دونوں اس کمرے میں آگئیں ۔ میں کچھ دیر تک اس کھڑکی سے لگی کھڑی رہی تھی ۔ کوئی گڑ بڑ نہ ہونے کا یقین ہوگیا تو اندر آئی ۔ ‘‘ ’’ آپ نے دیکھ لیا تھا اسے اندر آتے ہوئے ؟‘‘ سونیا نے پوچھا ۔ ’’ ہاں۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔’’ اس کے ساتھ ایک طالب بھی تھا ۔ان دونو ںکی باتیں بھی سنی تھیں میں نے ۔ پھر یہ اندر آگیا اور دوسرا باہر سے کنڈی لگا کر چلا گیا ۔‘‘ ’’ کنڈی لگا کر کیوں گیا ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ وہ بھی بتادوں گی ۔پہلے تو یہ سن کر مطمئن ہوجائو کہ ہمیں تین دن کے لیے یہ ایک محفوظ ٹھکانا مل گیا ہے ۔اس کمرے کی حالت بتا رہی ہے کہ وہ طالب اس کمرے میں آتا ہی نہیں ہوگا ۔ جب میں ٹھکانا تلاش کرنے کے لیے نکلی تھی تو مجھے بالکل خیال نہیں تھا کہ اتنا محفوظ ٹھکانا مل جائے گا ،بلکہ اس وقت بھی نہیں تھا جب میں تم دونوں کو یہاں لانے کے لیے گئی تھی۔‘‘ ’’ با ت سمجھ میں نہیں آرہی ہے ۔‘‘ میں بول پڑی ۔ ’’ میں خاصا لمبا رائونڈ لگا چکی ہوں ۔ یہاں دو کمروں سے زیادہ جگہ کے مکانات بھی ہیں ۔ بعض جگہ گھنی جھاڑیاں بھی ہیں ۔ سبھی مکانات ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ فاصلے پر ہیں کیوں کہ یہاں کوئی بڑی جگہ .....میرا مطلب ہے ، بڑے رقبے کی جگہ نہیں ہے ۔ ٹیلے یا اونچی نیچی زمین ہے ۔ بعض جگہ کچھ زیادہ رقبہ ہموار ہے تو وہاں بڑے مکان بنا لیے گئے ہیں ۔ جب میں اس مکان کے قریب سے گزری تھی تو مجھے یہ بڑا عجیب لگا تھا کہ اس میں باہرسے کنڈی لگی ہوئی تھی ۔ اسی وقت ایک طالب کو ادھر آتا دیکھ کر اسی مکان کی دیوار سے چپک گئی ۔ پھر میں نے ایک اور طالب کو بھی دیکھا جو ادھر سے گزررہا تھا ۔ اس نے مکان کی طرف آتے ہوئے طالب سے پوچھا کہ کیا وہ کاکڑ سے ملنے اِدھر آیا ہے ۔‘‘ ’’ کاکڑ نام ہے اس شخص کا ؟‘‘ سونیا سوال کر بیٹھی ۔ ’’ نام تو کچھ اور ہوگا لیکن اسے کاکڑ ہی کہا جاتا ہے ۔ اس کو دوسرے طالب نے بتایا کہ کاکڑ چند منٹ پہلے ہی یہاں سے گیا ہے ، اسے امیر نے طلب کیا ہے ۔ یہ لوگ ملا فضل اللہ کو امیر یا امیرالمومنین کہتے ہیں۔‘‘ ’’ یہی سنا ہے میں نے بھی ۔ ‘‘ سونیا بولی ۔ بانو نے اپنی بات جاری رکھی ۔’’جو کاکڑ سے ملنے آرہا تھا ، وہ واپس لوٹ گیا ۔ جو ادھر سے گزررہا تھا‘ وہ بھی ایک طرف چلا گیا ،تب میں اس مکان کی کنڈی کھول کر اندر آئی ۔ یہاں کا جائزہ لے کر میں نے فیصلہ کیا کہ ہیں اس مکان کے اسی کمرے میں اپنا ٹھکانا بنا لینا چاہئے ۔‘‘ ’’ کمرے کی حالت سے آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ کاکڑ اس کباڑ خانے میں آتا ہی نہیں ہوگا ۔ ‘‘میں نے کہا ۔ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ اور اگر وہ آتا تو اسے ٹھکانے لگانا ہی پڑتا ۔ اس کے بعد کیا ہوتا یہ بعد میں سوچا جاتا ۔ یہ عقبی کھڑکی اس وقت اندر سے بند تھی ۔ میں نے اس کی کنڈی کھول دی ۔ پھر یہاں سے نکل کر کنڈی لگائی اور تم دونوں کو لینے کے لیے اس ٹیلے کی آڑ میں پہنچی ۔ وہ ڈوری مجھے اسی کباڑ خانے میں نظر آئی تھی ۔ وہ میں نے اٹھالی ، سوچ لیا تھا کہ اس سے کیا کام لوں گی ۔ جو کام لیا ہے ‘ وہ تم دونوں دیکھ ہی چکی ہو۔‘‘ ’’ ہمارا ذہن بالکل ہلکا ہوجائے تو بہتر ہوگا بانو! ‘‘ سونیا نے کہا ۔’’ یہ آپ نے کیوںکہا کہ یہ ٹھکانا تین دن کے لیے ملا ہے !زیادہ دن کے لیے کیوں نہیں ؟‘‘ ’’ زیادہ دن بھی رکا جاسکتا ہے ۔‘‘ بانو نے جواب دیا ۔’’تین دن کی بات میں نے دو وجوہ سے کہی تھی ۔ ایک تو یہ کہ ہمیں سارے مرکز کی معلومات حاصل کرنے کے لیے تین دن سے زیادہ نہیں لگانا چاہیے ۔ دوسرے میرے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ کاکڑ کو تین ہی دن کے لیے قید تنہائی کی سزا ملی ہے ۔‘‘ ’’ کیا مطلب؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ کس نے سزا دی ؟‘‘ ’’ ملا فضل اللہ ہی نے دی ہوگی ! کوئی غلطی کی ہوگی اس نے !‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ جو طالب اس کے ساتھ آیا تھا ، وہ کاکڑ کا ہم درد بھی ہے ۔ ان دونوں کی باتوں ہی سے مجھے معلوم ہوا کہ کاکڑ کو تین دن کی سزا دی گئی ہے ۔ طالب کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ کاکڑ کو مکان میں بھیجنے کے بعد دروازے میں کنڈی لگادے۔ میرے ذہن میں ......‘‘ بانو یکایک چپ ہوگئیں ۔ ان کی توجہ پہلے کمرے کی طرف ہوگئی تھی ۔ میں نے اور سونیا نے بھی کاکڑ کے خراٹے سن لیے تھے ۔ وہ سوچکا تھا ۔ تین دن میں مرکز کے بارے میں کیا معلوم ہوا ؟ آئندہ اقساط میں پڑھیے! ٭٭